بھارت سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں مگر اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتے: شاہد خاقان عباسی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز ی کرتا ہے۔ نئی دہلی سرکار جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہو تی تب تک ان کے ساتھ مذاکرات کا امکان نہیں ہے، پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لئے تیار ہے مگر ہم اپنے ملک کے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتے۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کی ہے ، ہم نے ان سازشوں کا مقابلہ کیا ہے اور مستقبل میں ان کا سامنا کرکے منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں ۔
چیئرمین نیب کیلئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام فائنل کرلیا: خورشید شاہ
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ”نیا پاکستان “ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارا دوست نہیں ہے اس سے خیر کی توقع ہر گز نہیں رکھ سکتے،بھارت جب تک مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ، جب تک وادی میں مظالم بند نہیں کرتا ، مذاکرات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔نئی دہلی کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر ہماری کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور ہم کشمیر کی جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد جاری رکھیں گے۔ بھارتی حکام کومیرا یہی پیغام ہے کہ وہ کشمیری عوام کی رائے کو تسلیم کریں باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے کیو ں کہ پوری دنیا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو مانتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار قابل وزیر خزانہ ، ان کی کارکردگی سے مطمئن ہوں : شاہد خاقان عباسی
وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان کے بعد قومی سلامتی کمیٹی، سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہم نے ایک واضح پالیسی تیار کی اور اسی پالیسی کے ساتھ امریکہ کو جواب دیا، امریکی صدر کانگریس اور دیگر جگہوں پر جو بیانات دیتے ہیں ان کے سیاق و سطاق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی حکام سے ملاقات کے موقع پر ہم نے پاکستان کا مئوقف ہم نے بھرپور انداز میں بیان کیا جسے امریکہ کی جانب سے سراہا بھی گیا۔ امریکی حکام سے ملاقات کے موقع پر ہم نے انہیں بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف اس وقت دنیا بھر میں سب سے بڑی جنگ پاکستان لڑ رہا ہے،افغانستان میں امن کی خواہش سب سے زیادہ پاکستان کی ہے مگر اس وقت طالبان کا افغانستان کے ایک بڑے حصے پر مکمل کنٹرول ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد صرف افغانستان نہیں ہے بلکہ ہمیں دیگر چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو دنیا کے8ممالک کے وفود کے سامنے بیان کیا۔امریکی حکام کا سی پیک کے حوالے سے بیان ناقابل فہم ہے کیوں کہ سی پیک ایک سڑک کا نام نہیں ہے، اس کے اندر بہت سارے منصوبے ہیں جن میں سڑکیں، بندرگاہیں، صنعتی زونز اور دیگر چیزیں ہیں، سی پیک کی کامیابی سے پاکستان کی معیشت کی بہتری اور دیگر مسائل کا حل وابستہ ہے اور پاکستان اپنے ملک کی ترقی کے لئے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملک میں کوئی سازش نہیں ہو رہی ، اگر ایسا ہوا تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے: وزیر اعظم
افغان امور کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان اور وہاں کے عوام کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور افغانستان کے استحکام کی سب سے زیادہ خواہش پاکستان کو ہے اور پاکستان سے زیادہ کابل کا خیر خواہ کوئی بھی ملک نہیں ہے، آرمی چیف حکومت پاکستان کی اجازت سے افغانستان گئے اور انہوں نے افغان حکومت سے کہا کہ ہم ان کی افواج کو تربیت دینے اور دیگر معاملات میں مدد دینے کے لئے تیار ہیں ۔ اس وقت افغانستان میں بارڈر کنڑول کی ضرورت ہے اور ہم بارڈر کو کنٹرول کر رہے ہیں کیوں کہ افغان سرزمین میں پائی جانے والی دہشت گرد قیادت پاکستان میں حملے کرواتی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی جب مرضی پاکستان آئیں ہم ان کے استقبال کے لئے تیار ہیں اور میں بھی وہاں جانے کے لئے تیار ہوں۔ افغانستان سے پاکستان کا فیصلہ آدھے گھنٹے کا ہے اور افغان قیادت کو پاکستان آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔