”حکومتی تحریر محض دکھاوا ہیں ، واضح اور ایک تاریخ بتائی جائے “سپریم کورٹ نے مردم شماری کیس میں حکومتی تاریخ مسترد کر دی
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ کے فل بینچ نے مردم شماری کیس کی سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے مردم شماری میں تاخیر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ، سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا فوج کی عدم دستیابی کی وجہ سے مردم شماری نہیں کرائی جا سکی تاہم اگر فوج دستاب ہوئی تو مارچ یا اپریل 2017ءتک مردم شماری کا آغاز کر دیا جائے گا۔
اے این پی کے مرکزی رہنما حاجی محمد عدیل ہسپتال میں انتقال کر گئے
جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ حکومتی تحریر محض دکھاوا ہیں ،حکومت واضح اور ایک تاریخ بتائے ۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ سارے کام فوج نے کرنے ہیں تو اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی ایمرجنسی ہو تو فوج کو طلب کر لیا جاتاہے۔سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے مارچ اور اپریل 2017ءکی دی گئی مشروط حکومتی تاریخ مسترد کر دی گئی ۔
عراق: شہر فلوجہ کے قریب شادی کی تقریب میں خودکش حملہ، 40باراتی جاں بحق ، 60زخمی
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا ملک ایک قیاس پر چل رہا ہے س،”سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرانا تو اسے بند کر دیتے ہیں“ ۔ہم انصاف نہیں دے سکتے تو ادارے کی بھی کیا ضرورت ؟ ۔
انہوں نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہر بڑی سیاسی ججاعت جمود کے حق میں ہے، مردم شماری نہ ہونا موجود ہ اور سابقہ حکومتوں کی ناکامی ہے تاہم لوگوں کو بیوقوف بنائیں نہ پیسہ ضائع کریں ۔ اب بھی کہہ دیں مردم شماری کرانا حکومت کے بس کا کام نہیں۔ مرد م شماری کرائی تو اسمبلیوں کی سیٹیں بڑھانا پڑیں گی۔”مرد م شمارنی نہی کرانی تو ادارہ شماریات بند کردیں “۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ مردم شماری کرنا آئینی تقاضا ہے ، شرط نہیں لگائی جا سکتی ۔آبادی کے اعدادوشمار ہی معلوم نہیں۔