نواز شریف وزیراعظم رہیں گے، سپریم کورٹ کا پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے 6 رکنی جے آئی ٹی بنانے، وزیراعظم ، حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپاکرنیوالے پانامالیکس کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کیلئے 6 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے اور وزیراعظم، حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیدیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی کرسی بال بال بچ گئی کیونکہ لارجر بینچ کے 2 ججز نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا تاہم تین ججز نے رائے دی کہ معاملے کی تحقیقات کی جائے۔
پاناما کیس کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا بینچ تقسیم ، تناسب تین دو ہے
تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ 26مسلسل سماعتوں کے بعد محفوظ کیاگیا فیصلہ سنایا گیا۔ 547 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے سنایا گیا یعنی تین جج ایک طرف اور 2 جج ایک طرف ہیں جبکہ اسے جسٹس رائے افضل نے تحریر کیا ہے۔فیصلے میں 3 ججوں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا ہے جبکہ 2 ججوں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا کہا۔
سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں سب نے اپنی رائے دی ہے۔ امید ہےجو بھی فیصلہ ہوگا عدالت میں جذبات کا اظہار نہیں کیا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کا قانونی و آئینی پہلوﺅں سے جائزہ لیا گیا ہے اور رقم قطر کیسے منتقل ہوئی، اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے، حسن اور حسین نواز نے لندن میں فلیٹ کیسے خریدے، اثاثہ جات جدہ سے کیسے منتقل ہوئے،کیا حماد بن جاسم کاخط حقیقت پر مبنی ہے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب تحقیقات کیلئے غیر رضامند پائے گئے اور ان کی ناکامی کے سبب جے آئی ٹی بنائی جائے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ 1993 ء سے 96ء تک لندن کی جائیداد نوازشریف کے بچوں کے نام تھی اور اس عرصے میں وزیراعظم کے بچے ان کی کفالت میں تھے لہٰذا نیب وزیراعظم کے بچوں کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کی تحقیقات کرے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آرٹیکل 62 کے تحت رکن قومی اسمبلی کے لیے اہل نہیں وہ عوامی نمائندوں، قوم اور عدالت کے سامنے بھی ایماندار نہیں رہے۔جسٹس کھوسہ نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی جانب سے لندن جائیدادوں سے متعلق دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم لندن کی جائیداد کی خریداری اور قبضے سے متعلق وضاحت نہیں دے سکے، نیب رحمان ملک کی تحقیقات کی روشنی میں وزیراعظم کے خلاف کارروائی کرے جب کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔
جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ حسین نواز نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی تین آف شور کمپنیاں ہیں، انہوں نے انٹرویو میں کمپنیوں کی ملکیت اور لندن فلیٹس کی ادائیگی سے متعلق بھی کچھ نہیں بتایا جبکہ انٹرویو میں کہا گیا کہ لندن فلیٹس نیسکول اور نیلسن کی ملکیت میں ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان نے لندن جائیداد کی خریداری کو ظاہر نہیں کیا لہٰذا وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت ایسی آئینی درخواست میں شواہد کی روشنی میں فیصلہ دے سکتی ہے، عوامی مفاد سے متعلق کیس میں عدالت سول اور ٹرائل کورٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتی۔
”مبارک وزیر اعظم نواز شریف “، مریم نواز کا پاناما کیس فیصلے پر اظہار مسرت
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں معاملے کی تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے اور وزیراعظم، حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے 6 رکنی جے آئی ٹی 7 روز میں تشکیل دینے اور اس میں آئی ایس آئی ، آئی بی، ایف بی آر، ایم آئی، سیکیورٹی ایکسچینج، ایف آئی اے، نیب، سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کو شامل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے جبکہ اس کا سربراہ ایف آئی اے کا نمائندہ ہو گا۔ یہ ٹیم تحقیقات کیلئے بیرون ملک بھی جا سکتی ہے اور ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے گی جبکہ 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پاناما لیکس سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں، درخواست گزاروں نے عدالت عظمٰی سے درخواست کی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نااہل قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر دو مرحلوں میں 36سماعتوں میں کیس کو سنا۔ پہلے مرحلے میں جب چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد 4 جنوری 2017 سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا۔
فیصلے کی اپ ڈیٹس لائیو دیکھئے
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی ریڈ الرٹ رہی اور ریڈزون میں عام افراد کا داخلہ بنداور بغیرپاس سپریم کورٹ کی عمارت میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایس پی سیکیورٹی سپریم کورٹ احمد اقبال کی ہدایت پر سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کو عدالت کی طرف نہ لانے، امن و امان کو ہرحال میں برقرار رکھنے اور قانون کو کسی صورت ہاتھ میں نہ لینے کیلئے کہا گیا،ریڈ زون اور سپریم کورٹ کی عمارت کی سکیورٹی پر پولیس اور رینجرز کے 1500سے زائد اہلکار تعینات تھے ۔
لائیو ویڈیو دیکھئے
ہنگامی صورتحال پیدا ہونے پر ریڈزون کی عمارتوں کی سیکیورٹی کیلئے پاک فوج کے دستے تیار رہے۔ تمام سینئر پولیس افسر سیکیورٹی ڈیوٹیاں خود چیک کرتے رہے جبکہ سیاسی جماعتوں کو پابند کیاگیاکہ وہ امن و امان کو ہرحال میں برقرار رکھیں اور کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔پاناما کیس کے فیصلے کے پیش نظر کسی بھی ممکنہ رد عمل سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ،ریڈ زون اور اہم عمارتوں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔