ڈھاکہ کے سرنڈر کرنے کے بعد شیخ مجیب کو جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا: راجہ انار خان

ڈھاکہ کے سرنڈر کرنے کے بعد شیخ مجیب کو جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ...
ڈھاکہ کے سرنڈر کرنے کے بعد شیخ مجیب کو جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا: راجہ انار خان
کیپشن: Sheikh Mujeeb

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) 1971ءمیں پاکستان کے دولخت ہونے سے قبل عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب کو سرگودھا کی جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنانے کا انکشاف ہوا ہے تاہم بروقت اطلاعات ملنے کے باعث یہ پلان ناکام ہو گیا۔ شیخ مجیب کے ساتھ جیل میں بطور قیدی وقت گزارنے والے پولیس کی سپیشل برانچ کے سابق افسر راجا انار خان نے نجی ٹی وی کے پروگرام ”نقطہ نظر“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب کو نہیں پتہ تھا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور فائرنگ کی آوازیں آنے پر طرح طرح کے جھوٹ بول کر انہیں تسلیاں دی جاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب نے جیل میں گزارے عرصے کے دوران کبھی کسی اعلیٰ شخصیت سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور نا ہی کوئی اعلیٰ شخصیت ان سے ملنے کیلئے آئی، وہ باہر کی دنیا سے بالکل منقطع تھے۔
راجہ انار خان نے بتایا کہ شیخ مجیب الرحمان کا ٹرائل شروع کر دیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں پھانسی دینا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کے وکیل بھی جنگ کی بابت کوئی بات نہیں کرتے تھے کیونکہ حکومت کی جانب سے سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمان کے وکیل اے کے بروہی جب ان سے ملنے کیلئے آتے تھے تو میں وہیں موجود ہوتا تھا اور ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کو واش روم میں جا کر ایک ڈائری پر لکھ لیا کرتا تھا، وہ اپنے وکیل کے ساتھ صرف مقدمے سے متعلق بات چیت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے کے بروہی شیخ مجیب الرحمان کو تسلی دیتے تھے کہ آپ کے خلاف کیس بہت نرم ہے اور یقین رکھیں کہ آپ بری ہو جائیں گے تاہم مجھے یہ شبہ تھا کہ انہیں پھانسی دے دی جائے گی جبکہ شیخ مجیب الرحمان بھی یہی سمجھتے تھے کہ انہیں پھانسی کی سزا سنائی جائے گی۔
راجہ انار خان نے بتایا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو ہماری جیل کے اردگرد دو چار گولے گرے اور خدشہ ہوا کہ کہیں جیل کے اوپر گولے نہ گریں جس کے بعد شیخ مجیب سمیت ہم سب کو جیل سے نکال کر میانوالی بھیج دیا گیا۔ سرگودھا پہنچ کر شیخ مجیب الرحمان نے سوال کیا کہ گاڑیوں پر مٹی کیوں لگی ہوئی ہے جس پر ان سے کہا گیا کہ آج کل مشقیں چل رہی ہیں جس کے باعث ایسا ہو رہا ہے، جنگ سے متعلق انہیں بالکل بھی نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سرگودھا پہنچنے پر ریڈیو لگایا تو جنرل اروڑا کی جانب سے بار بار اعلان آ رہے تھے کہ ہتھیار پھینک دیں جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی، میری طبیعت خراب ہو گئی جس پر میں نے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس لے چلیں اور میں پولیس لائن چلا گیا اور وہاں جا کر دھوپ میں بیٹھ گیا جہاں مجھے پتہ چلا کہ ڈھاکہ نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن شیخ مجیب کو اس وقت بھی نہیں پتہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ڈھاکہ کی جانب سے ہتھیار ڈالے جانے کے بعد حملوں کے خطرے کے باعث جیل والوں نے قیدی لگا کر شیخ مجیب الرحمان کے سیل کے گرد خندق کھدوائی اور اس خندق کی دیواروں کے ساتھ چٹائیاں لگائیں اور پھر کمبل ڈالے اور آگے جا کر ایک سیٹ بنائی جہاں کمبل اور رضائیاں رکھ کر ان کے بیٹھنے کیلئے جگہ بنائی گئی۔ اس خندق کی بابت انگلینڈ جا کر بعد میں شیخ مجیب نے بی بی سی کے نمائندے سے کہا تھا کہ جیل میں میری قبر تیار کی گئی تھی جو دراصل خندق تھی۔
راجہ انار خان نے بتایا کہ جس رات ڈھاکہ نے ہتھیار ڈالے اس رات تین بجے کے قریب زور دار طریقے سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جب میں نے دیکھا تو راجہ طفیل تھا جس نے کہا کہ تمہاری اور شیخ مجیب الرحمان کی جان کو خطرہ ہے۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر آیا اور شیخ مجیب کو اٹھا کر کپڑے پہننے کو کہا جس پر شیخ مجیب نے سمجھا کہ انہیں پھانسی دی جانے لگی ہے تاہم خواجہ طفیل نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے۔ ہم باہر نکل کر سپیشل برانچ کی گاڑی میں بیٹھے اور بعد میں ہم ایک ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز کی کوٹھی میں چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اطلاع ملی کہ جیل کا کچھ عملہ قیدیوں کے ساتھ مل گیا ہے جس نے قیدیوں کی بیرکوں کے تالے کھول کر قیدیوں کو سیڑھیاں فراہم کر دی گئی ہیں۔ قیدی ہمارے سیل میں داخل ہو کر پہلے شیخ مجیب الرحمان کی سیکیورٹی پر مامور میرے سمیت 3افراد کو ماریں گے اور بعد میں شیخ مجیب الرحمان کو قتل کردیں گے۔ ڈھاکہ کے سرنڈر کرنے والی رات مجیب کو قتل کرنے کا پلان بنایا گیا تھا لیکن بروقت اطلاع ملنے پر انہیں وہاں نکال گیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ریڈ کیا گیا تو واقعی قیدیوں کی بیرکوں کے تالے کھلے ہوئے تھے اور کارروائی میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں بھی انہیں مہیا کر دی گئی تھیں۔

مزید :

قومی -اہم خبریں -