28 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی کی گئی تعریف نہیں مانتے،حکومت نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دباؤ دہشت گردی کی تعریف کو مذہب کے ساتھ جوڑا:سینیٹر ساجد میر

28 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی کی گئی تعریف نہیں مانتے،حکومت نے پیپلز ...
28 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی کی گئی تعریف نہیں مانتے،حکومت نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دباؤ دہشت گردی کی تعریف کو مذہب کے ساتھ جوڑا:سینیٹر ساجد میر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن)مسلم لیگ نواز کی اہم اتحادی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ 28 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی کی گئی تعریف نہیں مانتے، حکومت نے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے دباؤ میں دہشت گردی کی تعریف کو مذہب کے ساتھ جوڑا ہے تاکہ سندھ اور کراچی میں انکے کارکنوں کی منفی سرگرمیاں دہشت گردی کی تعریف میں نہ آئیں۔

 علماء کے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر ساجد میر کا کہنا تھا کہ 28 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی کی گئی تعریف نہیں مانتے، ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ دہشت گردی دہشت گردی ہوتی ہے،اسکا تعلق مذہب، مسلک اور سیاست سے نہیں ہوتا،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے ہم نے ترمیمی بل کی حمایت کی ہے مگر دہشت گردی کی تعریف قبول نہیں کی،دہشت گردی اور اس میں ملوث لوگ ملک، قوم اور اسلا م کے دشمن ہیں اور وہ بہت محدود ہیں۔سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ چند ایک افراد کے گناہوں کی سزا تمام مذہبی طبقات کو مت دی جائے،اس سے مذہبی طبقے کو غلط پیغام جاسکتا ہے،فو جی عدالتوں سے دہشت گردی کے خاتمے میں ضرور مدد ملے گی مگر ہمیں اس آڑ میں دہشت گردی کو مخصوص زاویہ کی بجائے اجتماعی طور دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ا بھی قومی سلامتی کو دہشت گردی سے خطرہ ہے،دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی،اس جنگ کے خاتمے کے لیے مذہبی قوتوں کی حمایت لینی چاہیے۔سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سب نے مل کر لڑنی ہے اکیلے فوج یا کوئی ادارہ تنہا یہ کام نہیں کرسکتا، بل سے مذہب اور اسلام کے نام کو نہیں نکالا گیا، اس لئے ہم حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود اس ایکٹ میں دہشت گردی کی معین تعریف کی مخالفت کر رہے ہیں اورہما رے تحفظات اب بھی موجود ہیں۔

مزید :

قومی -