فوجی عدالتوں میں توسیع پر پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس بلا نتیجہ ختم ،تمام جماعتیں متفق ہوں تو 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے:وفاقی وزیر قانون زاہد حامد
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی پارٹیوں کا ہونے والا اجلاس ایک مرتبہ پھر بے نتیجہ ختم ہو گیا ،زیلی کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی ،تاہم وفاقی وزیر قانون نے عندیہ دیا ہے کہ تمام جماعتیں متفق ہوں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے،دوسری طرف پیپلز پارٹی نے سیاسی جماعتوں کو اس اہم ایشو پر متفقہ موقف اپنانے کے لئے اسلا م آبا میں 4مارچ کو اے پی سی طلب کر لی ہے ۔
مزید پڑھیں:پاناما سے سرخرو ہونے کے بعد گلی گلی کرکٹ کھلیں گے : عابد شیر علی
نجی ٹی وی چینل ’’ڈان نیوز ‘‘ کے مطابق فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا اور کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں متفق ہوں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے ، مولانا فضل الرحمن کے اصرار پر آئینی ترمیم میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ریاست کے خلاف سنگین اور پرتشدد کارروائیوں کا جملہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے۔اجلاس میں حکومت نے نیا آئینی مسودہ بھی پیش کیا۔وزیرقانون کے مطابق پارلیمانی رہنماؤں کو 23 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے ساتھ ہی پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی ارسال کیا جائے گا۔زاہد حامد کا کہنا تھاکہ تمام پارلیمانی رہنما 28 فروری کے اجلاس میں اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی رائے دیں گے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت 3 کی بجائے 2 سال کرنے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ ریاست کے خلاف کارروائی کے الفاظ میں بھی ترمیم کردی گئی ہے، وہ حکومتی مسودہ پارٹی قیادت کے سامنے پیش کریں گے۔نوید قمر کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر قائم ہے جبکہ اسی کانفرنس میں حکومت کا آئینی مسودہ سب کے سامنے پیش کیا جائے گا۔نوید قمر نے تصدیق کی کہ حکومت نے مسودے میں نئی ترامیم مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر کیں۔دوسری جانب ذیلی کمیٹی کے اجلاس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طے پایا۔اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی مدت کا فیصلہ زاہد حامد کی زیرصدارت کمیٹی کرے گی جبکہ سینیٹر طلحہ محمود اور بیرسٹر سیف بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔دوسری طرف پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر ’’ آل پارٹیز کانفرنس‘‘4مارچ کو اسلام آباد میں ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔کانفرنس میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے تمام جماعتوں کو ہفتہ سے باضابطہ طور پر دعوت نامے بھیجے جائیں گے۔
واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس وقت حکومت نے قومی اتفاق رائے سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں۔علاوہ ازیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئین میں ترمیم کیلئے حکومت کے منظور کردہ بل کی اس کی موجودہ حالت میں حمایت نہیں کریں گے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے انھیں اعتماد میں لیے بغیر اس میں تبدیلی کی جس کا مقصد بظاہر اپنی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے ایماء پر ڈرافٹ میں حقائق کو تبدیل کرنا تھا، جس نے اس سے قبل اس ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی تاہم اب نئے ترمیم شدہ بل کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 175۔3 میں ترمیم کرنے کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا گیا، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو ایسے تمام قیدیوں کے ٹرائل کا حق دیا گیا تھا 'جو کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے ہوں گے اور مذہب یا فرقے کے نام کا استعمال کریں گے۔جس کے بعد نئے ڈرافٹ میں حکومت نے الفاظ 'مذہب اور فرقے کے نام کا استعمال' کرنے کے الفاظ نکال دیے جس نے سیاسی جماعتوں میں خوف پیدا کردیا تھا کہ یہ قانون ان کے خلاف ’’سیاسی انتقام‘‘کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔