بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ، پانچویں قسط

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ، ...
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ، پانچویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں خود بھی انتہائی تحقیق و جستجو کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بلا شک و شبہ پختون، پشتون، روہیلہ، سلیمانی، پٹھان اور افغان سب ایک ہی قوم کے مختلف نام ہیں۔

یہ ان گمشدہ اسرائیلیوں کی اولاد ہیں جنہیں اشوریوں اور بابل والوں نے باری باری شام کے علاقوں سے مشرق کی طرف جلا وطن کیا تھا اور جن کا ذکر کتاب مقدس اور کئی دیگر مشہور تاریخی کتابوں میں اکثر آتاہے۔

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ ،چوتھی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
افغان یا پختون کو آپ کسی نام سے یاد کریں وہ اصلاً سامی ہیں اور نسلًاابراہیمی ۔ یہ وہ قوم ہے جو پہلے شریعت موسوی پراور پھر دعوت عیسوی پر قائم تھی اورجب ان تک خاتمالنبین حضرت محمد ﷺ کی دعوت اسلام پہنچی تو اس پر لبیک کہتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوگئے اور دین اسلام کی تبلیغ میں کٹھن مرحلوں سے گزرتے ہوئے اسے دنیا کے مختلف ملکوں تک پہنچا دیا۔ کاش اس قوم کے نوجوان اس نکتہ کو سمجھ سکیں کہ یہ اس کی قومی خصوصیت اور اس کے بزرگوں کا تعامل ہے۔ یہ پختونوں کی روشن تاریخ ہے جو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ اس کی تاریخ کا ہر دور اور اس کے واقعات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ ایک دو کابیان نہیں یہ ایک قوم کا بیان ہے جو لاکھوں انسانوں کا مجموعہ ہے اور وہ تواتر سے پشت بہ پشت گواہی دیتے چلے آرہے ہیں۔
تاریخ افغانان کے چند مزید پہلو
شام سے جلاوطنی کے بعد سائرس کے وقت سے پختون ایرانی سلطنت کے مختلف مقامات میں بڑی عزت کیس اتھ سرسبز اور شاداب زمینوں پر آرام سے رہائش پذیر تھے پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ ساسانیوں کے ظلم و ستم اور تاتاریوں کی یلغار سے تنگ آکر ہجرت پر مجبور ہوئے اور اکثر و بیشتر اس پہاڑی علاقہ میں جا کر آباد ہوئے جو دشت لوط یا بادیہ ایران سے مشرق کو اور ہرات ، غور، دریائے فرہ اور زرنج کے مغرب میں مرد اور نیشاپور سے جنوب کی طرف کرمان اور مکران تک پھیلا ہوا تھا۔ وہاں پر وہ صحرا نشین بن کر پہاڑوں کے غاروں میں دشمنوں کی نظروں سے دور ، جنات کی طرح مستور، شہریوں کی نگاہوں سے پوشیدہ طور پر وقت گزارنے لگے۔ یہ جگہ ان کے لیے زیادہ محفوظ اور حصار کا درجہ رکھتی تھی۔ (بالکل اسی طرح ان کے بعض ہم نسل شمالی ایران کے پہاڑی علاقوں میں بھی موجود اور سر چھپانے پر مجبور تھے) اس دوران میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ رسول اللہ کے مبعوث ہونے کی خبر انہیں ملی جیسا کہ محمد احسان للہ عباسی اپنی تاریخ اسلام میں افغانستان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ ’’یہاں کے لوگ اپنے آپ کو اسرائیلی کہتے ہیں۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس قول کو ترجیح نہ دی جائے۔ یہود مدینہ ان افغانوں سے برابر خط و کتابت رکھتے تھے اور جب وہ لوگ مدینہ میں مسلمان ہوئے تو اپنا ایک شخص یہاں بھی دعوت اسلام کے لیے بھیجا‘‘
فلپ کے مطابق ایک سیاح جس کا نام ’’بنیمین‘‘ اور تطیلہ کا رہنے والا ہسپانوی یہودی تھا اور اسکو تاریخی حقائق کا زیادہ اندازہ تھا۔ وہ علاقہ جات پشت یا پخت، غرجستان، قوہستان، غور، وغیرہ میں ان پہاڑی افغانوں کے پاس جو یہاں رہتے تھے آیا تھا اور کافی وقت گزارنے اور تحقیق کے بعد ان کے متعلق اس نے لکھا کہ ’’نیشا پور یعنی مشرقی ایران کے پہاڑوں میں جو یہودی رہتے ہیں وہ ابتدائی جلا وطنوں کی اولاد ہیں‘‘(تاریخ شام)
بنیمین کا مقصد یہودی سے مراد نسل یہود اور عبرانی قوم ہے نہ کہ مذہب یہود۔ کیونکہ اس وقت جب وہ آیا تھا یہ لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور شریعت محمدی پر قائم تھے وہ اپنے آپ کو نسلاًبنی اسرائیل اور جہت دین سے مسلمان کہتے تھے۔ ابتدا میں لفظ یہودی کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ فلاں شخص یہودا قبیلے یا یہودا کی نسل سے متعلق ہے۔ پھر یہ لفظ ان عبرانیوں کے لیے بولا جانے لگا جو اسیری و جلا وطنی سے نجات پا کر واپس وطن پہنچ گئے تھے۔ آخر میں پوری اسرائیلی قوم کے لیے یہ لفظ استعمال ہونے لگا۔ اب اسرائیلی سے مراد وہ شخص ہے جو اسرائیل یعنی یعقوب ؑ کی اولاد میں سے ہو۔ مزید تشریح کرتے ہوئے سید سراج الاسلام لکھتے ہیں:
’’حضرت ابراہیم ؑ اپنے اہل و عیال اور چند دیگر نفوس کے ساتھ اُرسے ہجرت کرکے کنعان کی طرف چلے گئے اہل کنعان نے ان کو عبری(عبرانی) کا نام دیا۔ (ابراہیم ؑ کے جدا اعلیٰ کا نام عبر تھا) عبرانی قوم عرصہ تک خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتی رہی۔ چراگاہوں اور عمدہ زمینیوں کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ عبرانی عرصہ تک کنعانیوں کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتے رہے۔
یعقوب ؑ کے زمانہ میں جو ابراہیم ؑ کے پوتے تھے کنعان اورنواحی علاقہ میں قحط سالی کی وجہ سے عبرانیوں کو مصر میں پناہ لینی پڑی۔ یعقوب ؑ کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ اسی مناسبت سے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ یعقوب ؑ کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا یا جودا (جوذا) تھا اس لیے عبرانی، اسرائیلی، یہودی(اور جوذ) ایک ہی قوم کے مختلف نام ہیں۔ بنی اسرائیل ایک عرصہ تک مصر میں دریائے نیل کے قریب گوشن کے ضلع میں امن و امان سے رہتے رہے لیکن اپنے تمدن اور مذہب کی وجہ سے وہ بت پرست مصریوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو سکے۔ جب بنی اسرائیل کی طاقت کافی بڑھ گئی اور مصریوں کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں یہ لوگ ہمارے بتوں اور تمدن کو تباہ و برباد نہ کر دیں تو ان کو غلام بنا لیا گیا اور سخت مصائب و پریشانیوں کا شکار بنایا جاتا رہا۔ آخر کار ان کی قوم میں موسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔ موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر آزاد کرالیا۔‘‘ (عہد قدیم صفحہ ۵۲۹)

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔