سولہویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
افغانوں کا یہ منصوبہ نہایت کامیاب رہا اور محمد غوری کے زیر قیادت وہ پنجاب پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان ، بنگال اور اسام تک جا پہنچے۔
سلطان شہاب الدین غوری کے متعلق تاریخ واقعات ہند میں یوں درج ہے۔
’’اب تک کوئی بادشاہ تخت دہلی پر جم کر نہ بیٹھا تھا بلکہ صرف لاہورو ملتان غزنویوں کے تصرف میں رہا۔ جب کبھی فوج شاہی آگے بڑھ آتی تھی ہندو لوگ روپیہ دے کر ٹال دیا کرتے تھے اور ہندو راجہ بدستور اپنی اپنی راجدھانی میں حکومت کرتے تھے۔ اور جس قدر کہ خاندان غزنی کی طاقت کم ہوتی جاتی تھی ہندو راجاؤں کی طاقت بڑھتی جاتی تھی۔ مگر اب ایک ایسا بلا کا جھونکا آیا کہ ہندوستانی راجاؤں کو ان کے تختوں سے اڑا لے گیا اور مسلمان بادشاہ دہلی پر مسلط ہوئے۔ ‘‘(ص ۵۲)
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ,پندرہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
علامہ احسان الللہ عباسی لکھتے ہیں۔
’’خواجہ معین الدین اجمیری سنجری (وفات ۶۳۳ھ) کے ہند میں بس جانے اور مریدوں کے جا بجا پھیل جانے کے بعد غوری نے ہندوستان پر حملہ کرکے پرتھی راج کو شکست دی۔ ایک صورت یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ غوریوں نے جن کا ارادہ تمام ہندوستان فتح کرنے کا تھا خواجہ صاحب اور ان کے مریدین کو ہندوستان میں بطور ہر اول دستہ روانہ کیا۔ خواجہ صاحب کے خلیفہ بختیار کاکی خواجہ صاحب کی حیات میں ہی دہلی میں مقیم ہو چکے تھے۔‘‘ (تاریخ اسلام ص ۵۳۶)
واضح ہو کہ خواجہ معین الدین اجمیریا ور بختیار کاکی نسلاً دونوں افغان ہیں۔ ایک قبلیہ سنجر سے جسے سجکزی بھی کہتے ہیں اور دوسرا قبیلہ بختیار سے ہے جو شیرانی کی شاخ ہے۔ ان کے یہ قبیلے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ اس طرح شیخ احمد سر ہندی کے متعلق مولوی محمد حسن شعری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’شیخ احمد سرہندی کابلی الاصل تھا اور وہ کابل میں پیدا ہوا تھا۔(زبدۃ الاخبار ۱۷۳)
غوریوں کی اصلیت
منہاج سراج جوزجانی نے اپنی تالیف طبقات ناصری میں جو اس نے ۶۵۸ھ میں لکھی ہے غوری خاندان کو ضحاک تازی کی نسل سے ظاہر کیا ہے ۔چونکہ مولف کا خاندان غزنوی کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اس بیان کو سیاسی بنا پر غلط رنگ دے کر خاندان غزنوی کے انتقامی اثرات کے تحت غیر مصدقہ مواد جمع کرکے تاریخ کی غلط بنیاد ڈالی۔ اور چونکہ اس سے پہلے اس ضمن میں کوئی کتاب نہیں چھپی۔ جس سے صحیح حالات کا علم بعد کے مورخین کو ہوتا لہٰذا افغان قوم کے مورخین تک نے اس پر کچھ غور نہیں کیا۔ منہاج سراج نے یہ حوالہ تاریخ مبارک شاہ کا دیا ہے تحقیق کرنے پر یحییٰ بن عبداللہ سرہندی سامنے آتا ہے۔ جس نے تاریخ مبارک شاہی لکھی ہے مگر اس میں ضحاک تازی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
عبدالحئی حبیبی نے طبقات ناصری پر حواشی قلم بند کئے ہیں۔ اس نے منہاج سراج جوزبانی کا تعارف جس رنگ میں کرایا ہے وہ قابل غور ہے۔ اس نے یہ تفصیل لکھا ہے کہ وہ کون تھا اور واضح کیا ہے کہ خاندان غزنوی کے ساتھ اس کے رشتہ داری کے تعلقات تھے۔ نیز حبیبی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ غوری ضحاک تازی کی نسل سے ہیں۔
معلوم رہے کہ افغانوں میں ساہاک، سہاک، صحاک، ضھاک نام بہت ہیں۔ جو اضھاق، اسحاق کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں ابتدائی دور اسلام میں دنیائے عرب میں بھی ضحاک نام کے بہت آدمی گزرے ہیں۔ مثلا ضحاک بن قیس الفہری، ضحاک بن علوان، ضحاک بن سفیان، ضحاک بن قیس الشیبانی وغیرہ
ابوزہرہ مصری لکھتا ہے :
’’خراسان میں خلیفہ ہشام بن عبدالمک کے وقت ایک شخص الضحاک بن مزاحم گزرا ہے۔ جو فقیہ اہل خراسان تھا۔‘‘
فتوح البدان میں بھی ان کے متعلق یوں لکھا ہے کہ :
’’ضحاک بن مزاحم صاحب تفسیر ان مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ جو سمر قند میں فاتح کی شکل میں داخل ہوئے۔‘‘
افغانستان میں ایک قصبہ اب بھی ضحاک کے نام سے موجود ہے۔ اغلب ہے کہ یہ نام انہی کے نام سے منسوب ہو کیونکہ وہ حراسان کے رہنے والے تھے۔
افغان قوم نے ہمیشہ غوریوں کو افغان ہی سمجھا ہے اور غوری خود بھی اپنی نسل کو افغان ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ جیسا کہ شیر شاہ نے اپنے آپ کو افغان ہی کہا ہے۔
ابن بطوطہ جس کی حیثیت ایک سیاح کی تھی اور دوسرے ملک کا باشندہ تھا۔ اس نے غوری خاندان والوں کے ساتھ ہرات میں کافی وقت گزارا ۔ ان کے قاضیوں اور مشائخ سے تبادلہ خیال کیا۔ اپنے سفر نامہ جلد اول مولف ۷۴۷ھ میں لکھتا ہے کہ
’’ٰیہ ایک ہی قبلیہ کے لوگ ہیں۔ غور الشام کی طرف منسوب ہیں۔ اور ان کی اصل بھی اسی سے ہے۔‘‘
معلوم رہے کہ شام کے علاقہ شرق اردن میں وادی غور ایک عالقہ ہے جہاں سے ابتدا میں یہ لوگ جو بنی اسرائیل کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے جلا وطن ہو کر آئے تھے۔ اور وہاں غوریا کے نام سے ایک اسرائیلی پیغمبر بھی گزرے ہیں۔ جن کی نسبت سے یہ وادی ہے۔
ابن خلدون نے اپی تاریخ کے حصہ اول کے ابتدائی حصہ میں انبیاء کے متعلق لکھا ہے کہ’’یہوشع، غوریا، اموص، اشعیا، اور یونس بن متی علیہم السلام بنی اسرائیل کے ایک وقت کے انبیاء تھے۔‘‘
کتاب ’’پٹہ خزانہ‘‘ کے مولف تاریخ سوری کے حوالہ سے سلاطین غور کو سہاک کی اولاد سے بتاتے ہیں نہ کہ ضحاک تازی۔‘‘
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔