اٹھارہویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

اٹھارہویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی ...
اٹھارہویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئین اکبری میں اس کے متعلق یوں درج ہے کہ:
’’محمد بختیار خلجی پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے بنگال پر چڑھائی کی اور ہندو راجہ بنگال کا تختہ الٹ دیا۔ لکھنوئی کو اپنا پایہ تخت بنایا اس کے بعد سے ہی بنگال کی سر زمین دہلی کے مسلمان بادشاہوں کے تحت رہی۔‘‘
الغرض تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ خاندان غوری خود افغانی النسل تھا۔ ہندوستان میں عہد مغلیہ سے پہلے کی اسلامی حکومت کو مورخین نے دور افغانیہ کے نام سے یاد کیا ہے کیونکہ ہندوستان کو افغانوں ہی نے فتح کیا اور افغانوں کی قوم ہی سلطنت اسلامیہ کی اصل طاقت تھی۔

17ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک ضروری وضاحت
بعض مورخین نے افغان مشائخ و علماء کے نسب کے بارے میں شکوک پیدا کیے ہیں حالانکہ وہ نسلاً اور نسباً افغان تھے۔ مثال کے طور پر دو تین کا ذکر ضروری ہے۔
امام اعظم نسلاً افغان تھے: ڈاکٹر ابوالفضل بخت روان (پشاور یونیورسٹی) لکھتے ہیں:’’دمشق یونیورسٹی کے اکاڈیمی آف عربی زبان کے ڈاکٹر شتوز متشرق اپنے مقالہ ’’اللغۃ العربیہ فی افغانستان‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ :
’’ابو حنیفہ نعمان بن ثابت جو حنفی مذہب کے بانی ہیں نسلاً افغان تھے۔ ان کے دادا کابل کی فتح کے وقت گرفتار کرکے کوفہ میں داخل کر دیئے گئے۔‘‘
(بحوالہ مجلہ العلمی العربی ، دمشق جلد ۳۰ جز ۳، جنوری ۱۹۵۵ء ص ۳۶۷)
امام ابو حنیفہؒ
امام اعظم ابوحنیفہ کے کارنامے سب جانتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان کی پیرو اور معتقد ہے۔ ان کے نسب کی بے شمار مورخین نے تحقیق کی ہے۔ خصوصاً سید سلیمان ندوی، محمد ابوزہرہ مصری، علامہ شبلی نعمانی، رئیس احمد جعفری مشکوۃ شریف کے مرتب شیخ ولی الدین ابی عبداللہ اور نغحتہ العرب کے مصنف مولانا اعزاز علی وغیرہ۔
ان کا سن ولادت ۸۰ھ ہے اور اس پر جملہ مورخین و محققین کا اتفاق ہے۔ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:
۱۔ ’’امام اعظم کے والد ثابت بن زوطے فارسی تھے۔ اس بنا پر آپ نسباً فارسی ہیں۔ ان کے دادا کابل کے باشندہ تھے جو اس دربار کے مفتوح ہونے پر قید ہو کر آئے اور بنی تیم بن ثقلبہ کے کسی خاندان کے غلام بن گئے۔ پھر آزاد ہوگئے مگر نسبت کے لحاظ سے تیمی کہلاتے رہے۔ یہ روایت امام اعظم کے پوتے عمر بن حماد بن حنیفہ کی ہے۔
۲۔ لیکن ان کے بھائی اسمعیل نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بخدا ہمارا خاندان کبھی غلام نہیں رہا۔
۳۔ مذکورہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ امام اعظم کا نسب نامہ بیان کرنے میں ان کے دونوں پوتے مختلف ہیں اگرچہ یہ اختلاف ظاہری ہے۔
۴۔ عمر کے بیان کے مطابق ثابت کے والد کا نام زوطے ہے۔ اور اسمعیل کے قول کے مطابق نعمان ہے۔ عمر ان کے قید ہونے اور غلام ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں اور اسمعیل کلیتا غلامی کی نفی کرتے ہیں۔
۵۔ ہمارے نزدیک ان ہر دور روایات کے مابین وجہ تطبیق یہ ہے کہ زوطے یا نعمان ان شہروں کے فتح ہونے کے بعد غلام بنائے گئے مگر انہیں ازراہ احسان رہا کیا گیا جیسا کہ مسلمانوں نے بعض مفتوحہ علاقوں کے سربرآوردہ اشخاص کے حفظ ناموس نیز اسلامی سماحت کا ثبوت دینے اور ان کے قلوب کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے اس دور میں بارہا کیا۔
۶۔ ثقہ اور محقق علماء کی روایات کے مطابق امام اعظم فارسی تھے۔ عرب یا بابلی نہیں تھے۔
رئیس احمد جعفری کہتے ہیں:
۱۔امام ابو حنیفہ کا فارسی الاصل ہونا اس قدر مشہور ہے کہ تمام ثقہ مورخین اس پر متفق ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ بابلی تھے۔ چنانچہ خطیب مولف تاریخ بغداد لکھتے ہیں:
’’امام ابو حنیفہ اہل بابل سے تھے اور کبھی کبھی کہتے ہیں بابلی کا قول یہ ہے‘‘
۲۔ بعض متعصب احناف نے دعویٰ کیا ہے کہ امام عربی نژاد تھے اور کہا ہے کہ زوطے بن یحییٰ بن زید بن اسد کی اولاد سے تھے اور بعض کا قول ہے کہ ارشد الانصاری کے بیٹے تھے مگر یہ سراسر غلط ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ امام اعظم فارسی نژاد تھے اور شرفاء فارس کی طرف منسب ۔ ان کے جد اوّل بابل کے رہنے والے تھے جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
۳۔ امام صاحب کے والد کے مقام سکونت میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے ترمذ بعض نے نسا اور بعض نے انبار لکھا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ وہ ان سب مقامات پر رہائش پذیر رہے ہیں۔ آخر کار انبار(سرپل) میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
۴۔ اس بنا پر بعض مورخین نے امام ابو حنیفہ کاجائے پیدائش بھی انبار کو ہی قرار دیا ہے لیکن علماء کی اکثریت کا خیال ہے کہ امام کا مقام پیدائش کوفہ ہے اور یہی ان کے والد کی آخری رہائش گاہ تھی ۔ امام کے والد کو حضرت علیؓ کا شرف ملاقات حاصل تھا اور حضرت علیؓ نے ان کے لیے برکت کی دعا کی تھی۔‘‘

جاری ہے. انیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔