پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8

پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8
پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جس روز سے حضرت فیتے شاہ نے گاماں کے حق میں کلمہ خیر کہا تھااس کے بعد جب تک گاماں ریاست جودھپورمیں رہا، اسے کوئی ڈراؤنا خواب نہ آیا۔
ریاست جودھپور میں اب گاماں اور امام بخش کا دانہ پانی ختم ہو گیا تھا۔ ابھی انہوں نے اپنی چار سالہ فنی تعلیم مکمل کی ہی تھی کہ مہاراجہ جسونت سنگھ فوت ہو گیا۔مہاراجہ کی موت کے بعد عیداپہلوان نے استاد مادھو سنگھ سے اجازت لی اور اپنے دونوں بھانجوں کو لے کر ریاست دتیہ کے لئے روانہ ہو گیا۔جہاں ان کا محسن اور مربّی راجہ بھوانی سنگھ دیدہ دل فرش راہ کئے بیٹھا تھا اور اس کا دل اپنے عزیز بخش کے دونوں شیروں کو دیکھنے کے لئے مچل رہا تھا۔
****
پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

شاہ زوروں کو ریاست جودھپور کے امراء نے الوداع کیا اور ریلوے اسٹیشن پر ان کی ایک مجذوب بابا سے ملاقات ہوئی۔گاماں اس وقت ریل گاڑی کی کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا ۔جب ایک مجذوب سا شخص کھڑکی کے پاس آن کھڑا ہوا۔ وہ کپڑوں سے بے نیاز تھا اس کے سر کے بال اور داڑھی میلی تھی۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے برسوں سے نہیں نہایا۔ اس کے بال لٹوں کی طرح اس کے کندھوں پر جھول رہے تھے۔ آنکھوں میں عجیب سی وحشت تیر رہی تھی۔

عیداپہلوان گاماں کے سامنے کی نشست پر بیٹھا تھا۔ اس نے نظربھر کر مجذوب باباکو دیکھا اور اپنی واسکٹ میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکال کر مجذوب بابا کی طرف ہاتھ بڑھادیئے۔ مجذوب بابا نے قہر آلود نظروں سے عیداپہلوان کو دیکھا اور عیداپہلوان کے ہاتھ پر ایسا مکامارا کہ مٹھی میں دبے تمام سکے پلیٹ فارم پر بکھر گئے۔عیدا پہلوان نے جھٹ سے اپنا ہاتھ اندر کھینچ لیا تھا اور درد کی شدت سے ہاتھ سہلانے لگا۔اسکے ہاتھ پر مجذوب بابا کی ضرب ہتھوڑے کی طرح لگی تھی اور مضبوط اعضاء کا مالک عیداپہلوان اس ضرب کی شدت کو سہہ نہ سکا تھا۔
عیداپہلوان درویشوں،صوفیوں،ملنگوں اور اس طبقہ کے لوگوں کو انتہائی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ یہ صرف اسی پر موقوف نہیں تھا۔بلکہ ہر پہلوان خاندان کے افراد ان اللہ والوں سے عقیدت رکھتے تھے اور ان کی دعائیں لے کر اکھاڑے میں اتراکرتے۔عیداپہلوان نے مجذوب بابا کو گدا گر جان کر کچھ سکے خیرات کرنے کی کوشش کی تھی مگر نگاہ مجذوب بابا کے ظاہر سے الجھ کر رہ گئی تھی جس سے عیداپہلوان کو اس دھتکار کا سامناکرناپڑا تھا۔
مجذوب بابا نے قہر بھری نظروں سے عیداپہلوان کو دیکھا اور پھر یکایک اس کی نگاہیں گھومیں۔تاثر بدلا اورگاماں کو دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔’’دیکھ گامے تیرا ماما ہمیں خیرات کرتا ہے حالانکہ خود اسے خیرات کی ضرورت ہے۔‘‘
مجذوب بابا کی زبان سے گامے نے اپنا نام سنا تو ان کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔عیداپہلوان بھی اپنی سیٹ پرکسمساکررہ گیا اور دوسرے ہی لمحے جھٹ سے گامے کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے نیچے اتر آیا اور مجذوب بابا کے پاؤں پکڑ لئے۔
مجذوب باباکے لبوں پر مسکراہٹ تیرگئی۔’’عیدے پتر! کیا کررہا ہے۔ اٹھ، تو بھی تو درویشوں کی اولاد ہے۔‘‘مجذوب بابا نے عیداپہلوان کا کندھا تھپتھپایا۔عیداپہلوان کی آنکھوں میں ابھی تک شرمندگی تھی۔گاماں محو حیرت بنا کبھی مجذوب بابا اور کبھی اپنے ماموں کو دیکھ رہا تھا۔ مجذوب بابا نے اس کڑیل جوان شاہ زور گامے کی حیرت توڑنے کے لئے اس کا کندھا ہلایا تو گاماں جھولے کی طرح جھول گیا اور اس کے سارے اعضا جھنجھنا اٹھے۔ گامے کو محسوس ہوا جیسے مجذوب بابا طاقت کا ایک کوہ گراں ہے اور وہ خود ایک ہلکا پھلکا کانچ کا گڈا۔
عیداپہلوان نے مجذوب بابا کو خوشگوار دیکھا تو کہا۔’’بابا جی اپنے گامے پتر کے لئے دعا شوا کریں مولا سائیں اس کا بڑا نام کرے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔تجھے گامے کا کتنا بڑا نام چاہئے۔اتنا بڑا۔۔۔کہ اتنا بڑا؟‘‘ مجذوب بابا نے اپنے دونوں بازو آہستہ آہستہ کھولتے ہوئے کہا۔گاماں ابھی تک گم صم تھا۔یہ زندگی کا پہلا اتفاق تھا جب اسے کوئی اللہ والا ملا تھا۔ ورنہ وہ تو اپنے بزرگوں سے ایسے لوگوں کے بارے میں سنتا آیا تھا۔ آج ایک ایسے ہی شخص کواپنے سامنے پاکر حیرت زدہ ہو جانا اس کے لئے بالکل فطری بات تھی۔
’’بابا جی۔۔۔ بڑا نام اللہ سوہنے کی ذات کا ہے، کالی کملی والی سرکار کا ہے۔ بس دعا کریں گامے کے نصیب اچھے ہوں۔ساری دنیا میں اس کے نام کا ڈنکا بجے۔‘‘
مجذوب بابا نے عیداپہلوان کی بات کے جواب میں منہ بھر کر زور کی پھونک ماری اور تھوک بلبلے بن کرگامے کے چہرے پرگرا۔’’لوعیداپہلوان یہ پیشینگوئی ہے،ہم نے تیرے گامے کو دنیا کا بڑاشاہ زور بنا دیا ہے۔ پریاد رکھ بات اسی تک نہیں رہے گی۔ایک اور بھی آئے گا۔ہاں۔۔۔وہ بھی بڑا شاہ زور بنے گا اور وہ اس کی نسل میں سے ہو گا۔‘‘ مجذوب بابا نے امام بخش کی طرف اشارہ کیا جو اس دوران گاڑی سے اترکر ان کے پاس آکھڑا ہوا تھا۔ اسی لمحہ مجذوب بابا یہ کہہ کر بے نیازی سے ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل گیا۔
گاڑی نے وسل دی اور مجسمہ حیرت بنا گاماں اور امام بخش کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
ریل گاڑی چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر رکتی اور چلتی رہی۔گاماں کھڑکی سے باہرکے نظاروں میں کھویا تھا۔ اس کی نظر برائے نام ہی ان مناظر کو دیکھ رہی تھی۔ وہ تو مجذوب بابا کی پراسرار ملاقات کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔ اسے باربارباباکے بازوؤں کا وہ پھیلاؤ نظر آرہا تھا جسے بابا نے دنیا کا بڑا شاہ زور بننے کے لئے بنایا تھا۔ گاماں کو اس پھیلاؤ میں ساری دنیا سمٹی ہوئی نظرآئی جو ایک تاج بن کر گامے کے سرپر سج گئی تھی۔ یہ تو ابھی ایک تصوّر تھا، ایک مجذوب کی دعا تھی اور گامے کا یقین تھا۔اسے تو ابھی بہت سے مراحل طے کرنے تھے۔
****
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)