معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر10
میراں بخش بھکی والا بھی جدی پشتی پہلوان تھا۔ امرتسر کے یہ شاہ زور پہلوانی کی تاریخ میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ اس خاندان کے سترہ جوانوں نے شاہ زوری کی تاریخ میں اپنانام اور مقام بنایا۔ بھکی خاندان کے یہ پہلوان ہندوستانی ریاستوں اندور، بڑودہ ،جموں دربار، مرشد آباد دربار اور ریاست ریواں سے منسلک رہے۔
میراں بخش1874ء کے لگ بھگ امرتسر میں پیدا ہوا۔ گاماں اورمیراں بخش میں چند سال کا فرق تھا۔ میراں بخش نے بڑودہ ریاست میں پہلوانی کا آغازکیا مگر صحیح عروج اسے ریاست ریواں میں آکر ملا تھا۔ راجہ پرتاب سنگھ میراں بخش کا بہت قدر دان تھا۔اس نے ریاست کے تمام پہلوانوں کی کمان میراں بخش بھکی والا کے سپرد کر دی تھی اور یہ میراں بخش کے مقام کو تسلیم کرنے کی نشانی تھی۔
میراں بخش بہت وجیہہ پہلوان تھا۔ سنہرے لمبے بال، سرخ و سپید رنگت۔نہایت خوش مزاج اور خوش پوش تھا۔1901ء میں غلام پہلوان رستم دوراں کی وفات اور1904ء میں بوٹا لاہوری کے وفات پاجانے کے بعد پہلوانی کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا تھا اور استاد فن پہلوان نایاب ہو گئے مگر یہ میراں بخش ہی تھا جس نے نہایت تیزی سے اس خلا کو پر کردیا۔
معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس دور میں جموں دربار کے کیکر سنگھ پہلوان کا بہت چرچا تھاغلام پہلوان سے شکست کھانے کے باوجود وہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا تھا۔1911ء میں حکومت ہند نے الٰہ آباد میں ایک بڑے دنگل کااہتمام کیا تو اس کا منتظم اعلیٰ پرتاب سنگھ کو بنایا گیا۔ یوں میراں بخش جو راجہ کی پہلوانوں کی فوج کا سالار تھا اسے اس بڑے دنگل میں خاص مقام حاصل تھا۔ میراں بخش کی عمر پینتیس چھتیس سال کے قریب تھی۔ وہ راجہ کی حد سے زیادہ عنایات اور آرام طلبی کی وجہ سے بہت سست پڑ گیا تھا اور اس کی توند بھی نکل آئی تھی۔
راجہ نے اس دنگل میں میراں بخش کو کیکر سنگھ کے ساتھ کشتی لڑنے کے لئے کہا تو میراں بخش وقتی طور پر گھبرا گیا۔خوف کیکر سنگھ کی طاقت کا نہ تھا بلکہ وجہ آرام طلبی اور ڈھیلا پڑتا جسم تھا کیونکہ ایک عرصہ سے بڑی کشتی نہ لڑنے کی وجہ سے پہلوان جی ریاضت چھوڑ چکے تھے اور صرف نوخیز پہلوانوں کو اسرار فن سکھایا کرتے تھے۔
فرمائش راجہ کی تھی اور مقابل کیکر سنگھ پہلوان تھا۔وہی کیکر سنگھ پہلوان جس کے بارے میں مشہور تھا کہ بچپن میں اپنے استاد کے لئے کیکر کا درخت اکھاڑ لایا تھا جس سے اس کا نام ہی کیکر سنگھ پڑ گیا۔ واقعہ یہ تھاکہ کیکر سنگھ کے استاد کو صبح مسواک کرنے کی عادت تھی۔ ایک دن استاد نے کیکر سنگھ کو مسواک لانے کے لئے کہا۔ کیکر سنگھ گیا اور مسواک لے آیا مگراستاد کو پسند نہیں آئی اوردوبارہ بھیجا کہ اچھی سی مسواک لاؤ۔کیکر سنگھ نے یوں تین چار چکر لگائے مگراستادکو مسواک پسند نہ آئی۔ آخر کیکر سنگھ پہلوان نے طیش میں آکر کیکر کا پودا اتنے سمیت زمین سے اکھڑ اور کاندھے پر رکھ لایا۔ استاد نے حیرانی سے کیکرسنگھ کو دیکھا اور پوچھا۔’’اوئے کھوتے یہ کیوں اٹھا لائے ہو؟‘‘
کیکر سنگھ خفگی بے بولا۔’’استادجی! اب اپنے من سے مسواک بنالو۔‘‘
کیکر سنگھ کا یہ واقعہ زد عام ہوا اور یوں اس کی ہر دلعزیزی بھی بڑھ گئی۔ کیکر سنگھ کو آفتاب پہلوانی تک پہنچانے میں خلیفہ بوٹا پہلوان رستم ہند کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔خلیفہ بوٹا پہلوان لاہوری بہت بڑے نامی پہلوان تھے۔ایک زمانہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ مہاراجہ بیکانیر جسونت سنگھ نے بطور خاص خلیفہ بوٹاپہلوان کو سونے کا کڑا پاؤں میں پہننے کے لئے عنایت کر رکھا تھا جو کہ ایک گراں بہا اعزاز تھا۔ اس دور میں طلائی زیور کو پاؤں میں ماسوائے شاہی افراد کے کوئی اور نہیں پہن سکتا تھا۔ خلیفہ بوٹا پہلوان لاہوری رستم ہند کے بہتیرے شاگرد تھے مگردو شاگرد گاموں پہلوان بالی والا سیالکوٹی(گونگا پہلوان رستم ہند کا والد)اور کیکر سنگھ نے بڑا نام پیدا کیا۔ انیسویں صدی کے آخرمیں کیکرسنگھ غیر مسلموں میں سے چوٹی کا پہلوان تھا۔ وہ چھ فٹ پانچ انچ کا گرانڈیل جوان تھا۔
میراں بخش اور کیکر سنگھ کی کشتی سے قبل کیکرسنگھ پہلوان کے بارے میں بھی سن لیجئے کہ وہ کس پائے کا پہلوان تھا کہ معلوم ہو سکے کہ راجہ پرتاب سنگھ نے وقت کے عظیم پہلوان میراں بخش بھکی والا کوکیکر سنگھ سے کشتی لڑنے کی فرمائش کیوں کی تھی؟
کیکر سنگھ جموں کے دربار سے منسلک تھا۔ اس گرانڈیل پہلوان کی پے درپے فتوحات کا چرچا عام ہوا تو علی بخش پہلوان کا بیٹا غلام پہلوان اس سے مقابلہ کرنے کشمیر جاکر پہنچا۔علی بخش نے امرتسر کی مردم خیز دھرتی سے جنم لیا تھا اور اس کا سپوت غلام پہلوان درباری پہلوان کیکر سنگھ کے ساتھ کشتی لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ دونوں کے درمیان کشتی ہوئی۔غلام پہلوان نے کیکر سنگھ کو پچھاڑ دیا۔
کیکر سنگھ کی اس شکست کو معمولی نہ لیا گیا۔ اسے مذہبی انا کا مسئلہ بنا لیا گیا کیونکہ کیکر سنگھ تمام غیرمسلموں کانمائندہ پہلوان تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس لئے ایک مسلمان سے شکست کھانے کے بعد غیر مسلم چیخ اٹھے اور کیکر سنگھ کی شکست کو ورزش اور تیاری کی کمی پر محمول کیا۔ ان غیر مسلموں نے کیکر سنگھ کو غلام پہلوان کے ساتھ کشتی لڑانے کے لئے زور وشور کے ساتھ تیاری کروانی شروع کر دی۔ یہ زمانہ سکھوں کے عروج کا تھا اور وسطی پنجاب کی زراعت پر سکھ جاٹوں کی پوری پوری گرفت تھی۔ ان کے ہاں دودھ اور گھی کی کوئی کمی نہ تھی۔(جاری ہے )