وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر39
گاماں پہلوان نے زیادہ شاگرد نہیں بنائے تھے۔ صرف جیجا گھیئے والااور اللہ بخش لاہوری دو ایسے پہلوان تھے جنہیں رستم زماں نے اپنے فن سے آشنا کرایا۔ جیجا پہلوان18اپریل1914ء کو لاہور میں پیدا ہوا۔وہ آرائیں خاندان سے تھا۔ اس کے والد چودھری فیروز دین میوہ منڈی میں کام کرتے تھے۔ والد کو پہلوانی کا شوق تھا اس لئے جب وہ خود پہلوان نہ بن سکے تو اپنے بیٹے کو پہلوانی کے راستے پر ڈال دیا۔جیجا کاماموں بھی پہلوان تھا۔ ایک دن انہوں نے جیجا کی بچوں کے ساتھ کشتی کرائی۔جیجا ابھی بچہ ہی تھا مگر اس کی پکڑ سے لگتا تھا کہ بچے میں پہلوانی کے جراثیم ہیں۔
ماموں نے بھانجے کو ساتھ لیا اور ٹیکم گڑھ لے گیا۔ اس وقت اس کی عمر بارہ سال تھی۔ماموں نے اسے چار سال تک اپنے پاس رکھا اور پہلوانی کی تربیت مہیا کی۔جیجا جب سولہ برس کا ہوا تو اس کی پہلی کشتی ہوئی۔ یہ کشتی حمیدا پہلوان پسر مہتاب پہلوان کے ساتھ ہوئی جس میں جیجا نے چند منٹ میں ہی حریف کو کسٹوٹا مارا کر گرا دیا۔جیجا کو اس کشتی سے بڑی شہرت ملی۔ماموں کو بھی اس فتح سے امید ہوئی کہ اب بھانجے کا مستقبل ضرور روشن ہو گا۔جیجا سترہ برس کا ہوا تو اس کا ماموں اسے لے کر رستم زماں گاماں کی خدمت میں حاضر ہوا۔رستم زماں نے اس سے قبل کسی پہلوان کو اپنی شاگردی میں نہیں لیا تھا۔جیجا چونکہ ان کے معیار پر پورا اترا تھا۔اس لئے انہوں نے جیجا کو قبول کرلیا۔جیجا رستم زماں کے پاس اٹھائیس سال کی عمر تک رہا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جیجا کوئی زیادہ قدوقامت کا پہلوان نہ تھا۔وہ ساڑھے پانچ فٹ کا تھا۔اس کی رہنمائی ماہرانہ ہاتھوں میں ہوئی تھی۔ سخت تربیت کی وجہ سے وہ جلد ہی اپنے قد سے اونچا اڑنے لگا۔ وہ ہر کشتی میں سرخرو ہوا۔ جیجا نے جب غونثہ پہلوان کو گرایا تو اسے ’’ببر شیر‘‘ کا خطاب ملا تھا جبکہ دوسرا حریف ٹائیگر تھا۔ جیجا نے اپنے وقت کے کئی شاہ زوروں کو گرایا۔ ان میں گنڈا سنگھ پہلوان، للو پہلوان، شریف امرتسریہ، پھجی نونڈی والا پہلوان، سوہنی پہلوان بھماں چوڑیگر، معراج پہلوان باقی والا نے اس سے شکست کھائی۔ پھر جب انگریز پہلوان کریمر ہندوستان میں آیا تو اس نے آتے ہی گونگے کو چت کر دیا۔ گونگے کی شکست سے ہندوستانی کشتی خطرے میں پڑ گئی۔اسی ابتلا میں جیجا نے کریمر کو للکارا اور اسے شکست دی۔ اسی دوران جیجا ریاست ٹیکم گڑھ کی ایک رقاصہ پتلی کا اسیر ہو گیا اور بعد میں بری علتوں کا عادی ہو گیا پھر جب اس کی بلھڑ پہلوان سے کشتی باندھی گئی تو وہ اس سے چت ہو گیا۔یہ وہی وقت تھا جب منگل سنگھ نے دہلی کے مسلمانوں کو للکارا تو جیجا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو گیا اور اس سے شکست کھا کر خاموش ہو گیا۔
جیجا پہلوان نے دور شراب و شباب اور ناتوانی سے قبل یورپ کے کئی پہلوانوں کو گرایا تھا۔ وہ عام زندگی میں نہایت خوش اخلاق اور خوش پوش انسان تھا۔ انتہائی وجیہہ شخص تھا۔ وہ چار ریاستوں ٹیکم گڑھ، بڑودہ، جے پور، کولہاپور کا ملازم رہا۔ اس کی خوراک بہت سادہ اور ہلکی پھلکی تھی۔ وہ عام پہلوانوں کی طرح زیادہ نہیں کھاتا تھا۔ اسے ہر دنگل کا پانچ ہزار روپیہ معاوضہ ملتا تھا۔ جیجا نے پُتلی کی یاد میں ساری عمر بیتا دی اور شادی نہ کی۔ 1955ء میں ہارٹ اٹیک ہوا اور اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ جیجا گھیئے والے کی قبر گھوڑے شاہ (لاہور پاکستان) میں ہے۔
***
منگل سنگھ خلیفہ غلام محی الدین کا سدھایا ہوا تھا وہ اسی لئے اپنی دھاک جما رہا تھا کہ اس نے تمام فن خلیفہ سے سیکھا تھا۔ ادھر خلیفہ جی کو لاہور میں خبر ملی کہ منگل سنگھ نے مسلمانوں کی ہرزہ سرائی کی ہے اور جیجا گھیئے والا اس سے پٹ گیا ہے اور اب حمیدا رحمانی والا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو گیا ہے۔ خلیفہ جی یہ سن کر آتش پا ہو گئے۔
اس حرامی کی یہ جرأت کہ مسلمانوں کو للکارے۔ میں اس سانڈ کو نتھ ڈال دوں گا‘‘۔ خلیفہ جی غیض و غضب کی تصویر بنے امرتسر پہنچ گئے اور اپنے حریف خاندان کے شانہ سے شانہ ملا کر بولے۔ ’’میں منگل سنگھ کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ اس کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ میں آج سے خود حمیدا پہلوان کو زور کراؤں گا‘‘۔
گاماں رستم زماں، امام بخش کلو پہلوان کا سارا خاندان مسرت سے جھوم اٹھا۔ یہ خبر آناً فاناً تمام ریاستوں میں پھیل گئی کہ خلیفہ غلام محی الدین پہلوان کو تیار کرنے کیلئے امرتسر پہنچ چکے ہیں۔ ایک ہفتہ تک خلیفہ جی نے حمیدا پہلوان کو زور کرائے اور اسے لے کر دہلی جا پہنچے۔
کشتی کے روز دہلی میں ہندو مسلم فسادات کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ انتظامیہ کو بڑی مشکل سے حالات پر قابو پانا پڑا۔اسی رفتار میں دنگل ہوا۔ حمیدا پہلوان کا گروہ غلام پہلوان کا جانگیہ جھنڈے کی صورت میں لہراتا ہوا اکھاڑے پہنچا تھا۔ حمیدا پہلوان کیلئے جانگیہ کا علم لہرانا ایک روایت بن گئی تھی۔ اس کے بغیر وہ کبھی بھی اکھاڑے میں قدم نہیں رکھتا تھا۔ منگل سنگھ حسب معمولی ببلیاں مارتا ہوا اکھاڑے میں پہنچا۔ دونوں پہلوان مناسک کشتی ادا کرتے ہی ایک دوسرے پر بجلی بن کر کوندے۔ منگل سنگھ نے اپنا روایتی داؤ پٹھی استعمال کیا اور حمیدے کو اکھاڑے میں اچھال دیا۔ حمیدا اب خلیفہ جی کے ہاتھوں سے منگل سنگھ کے تمام داؤ سیکھ چکا تھا۔اس نے برق رفتاری سے ہوا میں قلابازی کھائی اور سیدھے پاؤں اکھاڑے میں آ کھڑا ہوا اور دوسرے ہی لمحہ منگل سنگھ کو جوابی پٹھی ماری۔ منگل سنگھ کا تختہ لرز گیا اور وہ دھڑام سے گر گیا مگر اس کی پھرتی بھی لاجواب تھی۔ وہ دوبارہ کھڑا ہو گیا اور قندمکرر کے طور پر حمیدے کو دھوبی پاٹ دے مارا۔ اس بار حمیدا لڑکھڑا گیا مگر دوسرے ہی لمحہ سنبھل کر اس نے منگل سنگھ کو ایک زور دار کسوٹا رسید کیا۔ منگل سنگھ زخمی بھینسے کی طرح ڈکرایا اور حمیدے کو انی مار کر گرانے کی کوشش کی۔ حمیدے کے پاس منگل سنگھ کے اس داؤ کا بھی جواب تھا۔ پھر حمیدے نے منگل سنگھ کو زیادہ وقت نہ دیا اور اس کے پٹ کھینچ کر نیچے گرا لیا مگر منگل سنگھ کا بھی جواب نہیں تھا۔ اس سے قبل کہ وہ چاروں شانے چت ہوتا، وہ کروب بدل گیا۔حمیدے نے جھٹ سے اسے قید میں لیا اور بڑے ماہرانہ انداز میں منگل سنگھ کو پچھاڑ دیا۔
حمیدا منگل سنگھ کو شانے چتے کرنے کے بعد اس کی چھاتی پر بیٹھ گیا اور کہا۔
’’منگل سنگھ! تیرے لئے یہی عبرت کافی ہے۔ اگر تو پہلوان کا پتر ہے تو پہلوانوں والی شان اپنا اور کبھی کسی مسلمان کو للکارنا نہیں‘‘۔
’’اوئے حمیدیا! ‘‘منگل سنگھ پھولی ہوئی سانس میں بولا۔ ’’میں تیرے جیسے کئی حمیدے کھا جاتا ہوں۔ یہ تو نے نہیں خلیفہ جی نے مجھے گرایا ہے‘‘۔
’’منگل سنگھ تو نے اپنے استاد کا نمک بھی حرام کیا۔ تو نے اس درویش کی لاج نہ رکھی۔اب تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کی نسبت پر فخر کرے‘‘۔
منصف نے حمیدے کی فتح کا اعلان کیا۔ حمیدے کو دہلی کے مسلمانوں نے ایک بڑے جلوس کی صورت میں دہلی بھر میں گھمایا۔ اس روز دہلی کی تمام مساجد میں مسلمانوں نے شکرانے کے نفل ادا کئے۔ (جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں