معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر12
کیکر سنگھ نے ہندوستان کے بہتیرے اکھاڑوں میں جاکرزور کئے مگر اس کو مراد نہ ملی۔آخر اسے معلوم ہوا کہ استاد بوٹا پہلوان رستم ہند اس پائے کے شاہ زور ہیں جو اسے زور کراسکتے ہیں۔ایک روز استاد بوٹا لاہور کے اکھاڑے میں آئے تو کیکر سنگھ کو خبر ہو گئی۔اس نے اپنی چادر اٹھائی اور ملنے کے لئے چل پڑا۔ استاد بوٹا کو بھی خبر ہو گئی کہ کیکرسنگھ آرہا ہے۔ انہوں نے اکھاڑہ تیار کرایا۔
کیکر سنگھ استاد بوٹا کے پاس پہنچا اور اپنی خواہش کااظہارکیا۔’’استاد جی ہم نے آپ کے بہت چرچے سنے ہیں۔ ذرا آج ہم کو بھی زور کرادیں۔‘‘
استاد بوٹا پہلوان رستم ہند کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پچاس ساٹھ پہلوانوں کو زور کرایا کرتے تھے،جن میں ان کے بھائی محمد بخش عرف چوہا پہلوان اور گاموں پہلوان بالی والا اور منہی پہلوان رنی والا بھی شامل ہوتے تھے۔ استاد بوٹا نے کیکر سنگھ کو خوش دلی کے ساتھ کہا۔’’آؤ آؤ ست بسم اللہ۔آپ کوزور نہیں کرانا تو کسے کرانا ہے۔‘‘یہ کہہ کر استاد بوٹا نے کیکر سنگھ کو زور کرنا شروع کیا۔
معروف پہلوانوں کی داستانیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس روز یہ خبر عام ہو گئی کہ آج استاد بوٹاجموں دربار کے فیل مست، کیکر سنگھ پہلوان دیو ہند کو زورکرائیں گے۔ کیکرسنگھ کی طاقت کسی دریا کی طغیانی زدہ پانی سے کم نہیں تھی جو پشتے توڑ کر باہر نکلنے کو مچلتا رہتا ہے۔ ادھر استاد بوٹا پہلوان رستم ہند بھی کوئی معمولی قسم کے پہلوان نہیں تھے اس لئے اس زور کو دیکھنے کے لئے سینکڑوں شائقین اکھاڑے میں پہنچ گئے۔
استادبوٹا لاہور یا مہاراجہ بڑودہ کے دربار سے منسلک تھے۔راجہ اور رانی ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ وہ مہاراجہ سے جو کہتے اسے منظور کر ا لیتے۔ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتے اورموتیوں کی معجونیں تقویت دل و دماغ کے لئے خوش کرتے تھے۔
بڑودہ ریاست کا مہاراجہ کھنڈے راؤ بہت پہلوان پر ور قسم کا انسان تھا۔وہ خود بھی ایک بڑا پہلوان تھا۔بڑودہ میں سب سے بڑا پہلوان عمر بخش خرادی امرتسری گنوارا تھا جو 14روپے روز وظیفہ پاتا تھا۔اس ریاست میں رمزی، جمال،سلطان سیا، بندو، جیا،بھاگیرتو، چراغ برادر عبدالرحیم اور علیا پہلوان گرزبند (بھولو کا پڑنانا)جیسے پہلوان تھے۔مہاراجہ کھنڈے راؤ اکثر کہا کرتے کہ اگرمیری ریاست ہاتھ سے نکل جائے تو مجھے ذرہ برابر فکر نہ ہو گی۔کیونکر بھرت پور میں پہلوانی کرکے کم ازکم چار پانچ روپے روز اپنے گزارہ کے لئے کمالوں گا۔
مہاراجہ حقیقتاً ایک بے پایاں قسم کا شاہ زور تھا۔ اس کااندازہ یوں لگائیں کہ ایک بار مہاراجہ کھنڈے راؤ گائیکواڑ کی اپنے وقت کے ایک عظیم پہلوان نے رمزی سے کشتی ہوئی۔ جب دونوں ایک دوسرے کو چت نہ کر سکے تو مہاراجہ نے رمزی سے کہا تھا۔
’’رمزی تو مجھے تین دن تک چت نہیں کر پائے گا۔لیکن تیرے پسینے کی بدبو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ۔مجھ کو چھوڑ دے۔ میں تجھے جیتنے کا انعام دوں گا۔‘‘لہٰذا رمزی نے مہاراجہ کو چھوڑ دیا اور مہاراج نے اپنی پوشاک اور زیورات رمزی کو بطور انعام دیئے جن کی قیمت سوا لاکھ روپیہ تھی۔
رمزی پہلوان اور بوٹا پہلوان رستم ہند کے درمیان بھی ایک یادگار معرکہ ہوا تھا۔رمزی پہلوان کا اس دور میں طوطی بولتا تھا۔ اس کا تعلق امرتسر سے تھا۔دیو نما رمزی پہلوان کا وزن بارہ اور چودہ من کے درمیان بیان کیا جاتا ہے۔ رمزی نے اپنے وقت کے بڑے بڑے پہلوانوں کو شکست دی۔اس نے غلام پہلوان رستم ہند کے والد علیا پہلوان سے بھی کشتیاں لڑیں۔علیا پہلوان اپنے وقت کے بڑے پہلوان تھے۔ رمزی پنجاب سے جب ریاست بڑودہ جہاں کا حکمران مہاراجہ کھنڈے راؤ تھا۔میں وارد ہوئے تو مہاراجہ نے ان کی سواری کے لئے ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا بھیجا تاکہ رمزی پہلوان اس پر بیٹھ کر محل تک آئیں۔رمزی پہلوان گھوڑے پر بیٹھ گئے اور گھوڑا ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ اس کمر ٹوٹ گئی اور رمزی پیدل ہی محل تک آئے۔
رمزی بہت ہی قیمتی لباس زیب تن کرتے تھے۔وہ ہاتھی پر سواری کرتے۔ ان کے ہاتھی کے آگے نکیربولاکرتا تھا جیسا کہ راجاؤں کی سواری کے آگے بولا کرتا تھا۔ اس پراکثر رعایا کو غلط فہمی ہو جاتی کہ شاید مہاراجہ کی سواری آرہی ہے۔لہٰذا وہ احترام میں کھڑی ہو جاتی۔ مہاراجہ کو یہ خبر ہوئی تو اس نے رمزی کی سواری کے آگے نکیر کابولنا بند کرادیا۔مہاراجہ نے رمزی پہلوان کو ہیرے اور جواہرات سے مرصع سونے کا قیمتی گرزدیا تھا جسے رمزی تمام وقت اپنے ساتھ رکھتے۔(جاری ہے)