وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر46

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر46
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر46

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھولو بے خوفی سے رستم میسور کا جائزہ لینے لگا۔ پھر اس نے حسب معمول گلے میں لٹکے تعویز کو چوما اور ہتھ جوڑی کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اسی اثناء میں حمیدا پہلوان اپنی کرسی سے تڑپ کر اٹھا اور گرج کر بولا۔ ’’بھولو‘‘!
بھولو نے بے تابی سے ماموں کی طرف دیکھا۔ حمیدا پہلوان جھٹ سے پاس پہنچا اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’نہیں بھولو تو ہتھ جوڑی نہیں کرے گا‘‘۔
بھماں چوڑیگر کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تیر گئی۔ مہاراجہ نے تڑپ کر بولا۔
’’پہلوان جی! ہتھ جوڑی کی رسم ہونے دیں‘‘۔
’’نہیں مہاراج حضور! میرا پٹھہ بھماں چوڑیگر سے مقابلہ نہیں کرے گا‘‘۔
مہاراجہ کے ارادوں پر اوس پڑنے لگی۔ ’’پہلوان جی! آپ بچے کا دل نہ توڑیں۔ اس نے میری ریاست کے پہلوانوں کو للکارا ہے تو اس کا جواب اسے ملنا چاہئے‘‘۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آپ کسی اور بڑے پہلوان کو اس کے مقابلے پر لے آئیں مگر یہ بھماں جی سے نہیں لڑے گا‘‘۔ حمیدا پہلوان نے مضبوط ارادے سے کہا۔
’’کشتی ہو گی تو رستم میسور ہی سے ہو گی‘‘۔ مہاراجہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ ’’اس نے ہماری غیرت کو للکارا ہے‘‘۔
’’مہاراج جو بھی فیصلہ صادر فرمائیں یہ آپ کا حق ہے۔ اس کی سزا تو بھگتنے کیلئے ہم تیار ہیں مگر بھولو یہ مقابلہ ہرگز نہ کرے گا‘‘۔ حمیدا پہلوان نے ٹھوس لہجہ میں جواب دیا تو مہاراجہ ہوش میں آ گیا۔ وہ حمیدا پہلوان کے رتبے سے آگاہ تھا کہ وہ ریاست رادھن پور کے راجہ کا چہیتا پہلوان ہی نہیں بیٹا بنا ہوا ہے۔ اس لئے اس نے ذرا تحمل کیا اور کہا۔
’’تو پھر آپ خود رستم میسور کا مقابلہ کریں‘‘۔
’’میں بھی معذرت ہی کروں گا‘‘۔ حمیدا پہلوان نے کہا۔ ’’بھماں جی ہمارے استادوں کی جانب سے ہیں۔ ان کے بڑوں کا جب میرے بڑوں نے ہمیشہ احترام کیا ہے تو میں بھولو اور خود کو اس بے ادبی کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں‘‘۔
حمیدا پہلوان بھماں چوڑیگر سے مخاطب ہوا۔ ’’خلیفہ جی! آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اب میں خود بھی خلیفہ غلام محی الدین سے فیض یاب ہو چکا ہوں۔اس طرح تو ہم بھائی بند ہیں۔ خلیفہ جی غلام محی الدین اور استاد وقت خلیفہ کریم بخش پیلڑے والے سے آپ کا تعلق ہمیں اس گستاخی کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔پھر حمیدا پہلوان نے کہا۔ ’’پہلوان جی! ہمیں گھیر کر ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیا گیا ہے کہ اگر ہم مقابلے سے کترائیں بھی تو عوام کی نظر میں رسوائی ہو گی لیکن اس رسوائی کو تو قبول کر لوں گا مگر حد ادب کی دیوار نہ گرنے دوں گا۔ آپ بھولو کے سرد پر دست شفت رکھیں اور دعا کریں خدا اسے ہمیشہ سرخرو کرے‘‘۔
بھولو نے یہ سنا تو جھٹ سے آگے بڑھا اور بولا۔ ’’پہلوان جی! میری اس جسارت پر درگزر فرمائیں‘‘۔
بھماں چوڑیگر نے بھولو کو سینے سے لگا لیا اور اس کے سر پر دست شفقت پھیر کر فاتحانہ انداز میں مہاراجہ کی طرف دیکھنے لگا جو اب اپنے مذموم عزائم کی ناکامی پر تلملا رہا تھا۔
بالاخر چراغوں سے چراغ روشن ہو گیا۔بھولو نے جونہی عمر عزیز کی سترہویں سیڑھی پر قدم رکھا اس کی باقاعدہ کشتی باندھ دی گئی۔ یہ کشتی گاماں اور امام بخش کے حریف حسین ملتانی کے بیٹے احمد بخش ملتانی سے قرار پائی۔
27 مارچ 1939ء بروز پیر لاہوریوں کے علاوہ پنجاب بھر کے پرستار کشتی کیلئے بڑا ہنگامہ خیز دن تھا۔پنجاب اور لاہور کا روایتی تہوار میلہ چراغاں اپنے عروج پر تھا جب بھولو اور احمد بخش کا مقابلہ ہوا۔ دنگل گاہ منٹو پارک پریڈ تھی۔ منصفان کشتی میں سردار عبدالصمد خاں سٹی مجسٹریٹ لاہور، حاتو خاں ملتانی، احمد بخش بھکی والا امام بخش رستم ہند تھے۔ ٹھیکیدار ماسٹر نور دین اور مستری فضل دین نے دنگل کی رونقیں بڑھانے کیلئے بڑا اہتمام کیا تھا اور خوب تشہیر کی۔
بھولو اور احمد بخش المعروف بخشندہ پہلوان کی کشتی پر بڑے یادگار پمفلٹ بھی شائع ہوئے تھے۔ ان کے ذریعے عام تنبیہہ بھی کر دی گئی تھی کہ دنگل کے بارے میں جھوٹی افواہ اڑانے والا دنگل کے ہرجہ و خرچہ کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ کشتی کیا تھی ایک جنگ تھی۔ بھولو کی شان میں قصیدے لکھے گئے تھے۔چند اشعار کچھ یوں تھے
ضرغام ہے وہ زور میں
رعد خروشاں شور میں
سختی میں وہ فولاد ہے
رستم کی وہ اولاد ہے
اسی طرح احمد بخشندہ پہلوان کے بارے میں لکھا گیا۔
لاکھوں میں گویا فرد ہے
میدان کا وہ مرد ہے
اللہ کی آشیش ہے
احمد کی وہ بخشیش ہے
اس موقع پر خلیفہ سراج الدین سراج پہلوان لاہوری جاگیردار ریاست بھوتپور نے ایک غزل کہی۔ اس کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں۔
لطف جب ہے ہو نیا مضمون نئی ایجاد ہو
وہ غزل سن کر دل ناشاد جس کو شاد ہو
آج وہ دنگل ہے جس کو دیکھ کر دل شاد ہو
خطہ پنجاب والوں کو مبارکباد ہو
وقت دنگل چاہئے ہر دم زباں پر یاعلٰیؓ
لب پہ ذکر مصطفٰیؐ دل میں خدا کی یاد ہو
ان میں وہ طاقت ہے کانپیں شیر جن کے روبرو
دید کی بنیاد کا ہر حرف بے بنیاد ہے
یہ دنگل شیروں کی جوڑ کا تھا۔ ہر حریف کے مقابل ایک شیر جواں اتر رہا تھا۔ بھولو کے علاوہ اس دنگل میں اعظم پہلوان پسر امام بخش رستم ہند کا جوڑ چمن لال پٹھہ تیرتھ راج پہلوان، لالہ راج پری پیکر پٹھہ بسا پہلوان کا محمد حسین برادر گونگا پہلوان اور اسی طرح کے اور بڑے جوڑ تھے۔(جاری ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں