وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر47
مشتہرین نے لاہور کے درودیوار اور پمفلٹوں پر بھولو اور احمد بخش کے بارے میں ایک عجیب و دلچسپ بات لکھی اور اس مقابلہ کو یوں کہا۔
’’شیر کا شیر سے مقابلہ۔ رستم ہند کے بہادر بیٹے کی جنگ اسفند یار ہند کے دلاور نونہال سے۔ جوانی کی ظاہر نظیر رستم ہند امام بخش کی تصویر منظور عرف بھولو پہلوان اور اسفند یار ہند حسین بخش ملتانی کی نشانی بخشندہ پہلوان سے جنگ دیکھنے آئیں‘‘۔
یہ بھولو کی آزمائش کا پہلا امتحان تھا۔ اس کیلئے فن کشتی کا ایک ایسا مرحلہ کہ جس کے بعد اس کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ بھولو ریشمی جانگیہ زیب تن کئے اکھاڑے کی سلامی کو آیا تو پرستار فن کو گاماں کا عہد یاد آ گیا۔ گاماں بھی اسی انداز میں اکھاڑے کو سلامی دینے آتا تھا۔ منصف نے احمد بخش اور بھولو کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا اور مناسک کشتی ادا ہوتے ہی دونوں پہلوان ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھولو نے حریف کو پہلے ہی داؤ سے زچ کر کے جڑ سے ہلا دیا۔ احمد بخش بھولو سے پانچ برس بڑا اور فن میں پختہ تھا۔ اس نے جھٹ سے توڑ اور پھر بھولو کو اینٹی مارنے کی کوشش کی، لیکن بھولو داؤ میں نہ آ سکا۔ البتہ اسی لمحہ بھولو نے اپنے باپ امام بخش کا آزمودہ داؤ آزمایا اور احمد بخش کی کسیں بھر کر آگے رکھ لیا۔ تماشائی اور اساتذہ فن بھولو کی اس پھرتی پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔احمد بخش چند لمحے تک بھولو کی گرفت میں رہنے کے بعد داؤ کا توڑ کر گیا اور حریف کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس بار دونوں پہلوانوں کے درمیان ایک دوسرے کو گرانے کیلئے خوب داؤ پیچ کی بیت بازی ہوئی۔بھولو اور احمد بخش دونوں ہی اصیل بوٹی پہلوان تھے لہٰذا دونوں کو ہی اپنے اجداد کے فن کی لاج رکھنی تھی۔ دونوں نے اکتساب فن کے دوران جو کچھ سیکھا تھا آج بڑی روانی سے اس کو پیش کر رہے تھے۔ کشتی کو آدھ گھنٹہ گزر گیا مگر کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہوا البتہ بھولو کے جارحانہ تیور میں تیزی آ گئی تھی۔ فن جوالامکھی کی طرح اس کے فولادی بدن سے پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا اور احمد بخش لمحہ بہ لمحہ اس کی تپش کے آگے بے بس ہو رہا تھا۔ اسی دوران بھولو نے احمد بخش کو تباہ کن پٹھی مار دی مگر احمد بخش کے دم خم قائم تھے۔اس نے ہوا میں ہی قلابازی کھائی اور پاؤں کے بل اکھاڑے میں گرنے لگا۔ بھولو نے برق رفتاری کا مظاہرہ کیا جونہی احمد بخش قلابازی کھانے کے بعد اکھاڑے پر قدم رکھنے لگا تو بھولو نے ٹانگ کرا دی اور احمد بخش ایک ٹانگ پر گھوم کر اکھاڑے میں گر گیا۔ بھولو کا یہ عمل داؤ کی دنیا میں نیا اضافہ تھا۔ حالانکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اکثر پٹھی کھانے والے پہلوان اکھاڑے میں قلابازی کھا کر سنبھل جاتے تھے اور حریف کو دوبارہ داؤ مارنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔بھولو کے اس داؤ پر بڑے بڑے پہلوان عش عش کر اٹھے اور انہوں نے بے ساختہ گاماں اور حمیدا پہلوان سے کہا۔
’’پہلوان جی۔ فیصلہ تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے مگر آج بھولو نے جو فن پیش کیا ہے بخدا اس سے قبل نہ دیکھا تھا‘‘۔
احمد بخش چت ہوتے ہوتے بچ گیا تھا۔اس نے فصیل جاں کو سنبھالا اور کھڑا ہو گیا۔ دونوں کے درمیان ایک بار پھر داؤ پیچ کا تبادلہ خیال ہونے لگا۔ کشتی کو پون گھنٹہ ہو گیا تھا مگر فیصلہ نہ ہو سکا۔ بڑوں کے کہنے پر منصفین نے کشتی برابر چھڑا دی۔
بھولو اور بخشندہ پہلوان کا یہ معرکہ خوب کانٹے دار رہا تھا۔ اگرچہ بھولو کا پلہ تادم آخر بھاری رہا مگر احمد بخش نے بھی کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ بھولو کے پہلے مقابلے اور گاماں کی زندگی کے پہلے پیشہ وارانہ مقابلے میں بہت مماثلت تھی۔ گاماں نے بھی سترہ سال کی عمر میں پہلی جنگ لڑی تھی جو رحیم بخش سلطانی والا کے ساتھ ہوئی تھی۔ رحیم بخش بھی گاماں سے پانچ برس بڑا تھا۔ یوں تایا بھتیجے میں یہ مماثلت مستقبل بینوں کی پیش گوئیوں کے عین مطابق درست ثابت ہوئی۔ بھولو طاقت کا طوفان بن گیا تھا۔ جلد ہی اس کا دوسرا مقابلہ علیم پہلوان پسر محمد بخش چوہا پہلوان سے باندھ دیا گیا۔
علیم پہلوان بھی بڑے خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ وہ بوٹا پہلوان رستم ہند کا بھیتجا تھا۔ اس لئے بھولو اور علیم کے معرکے کی بھی خوب تشہیر کی گئی۔ یہ مقابلہ لاہور منٹو پارک میں ہوا۔ ایک روز قبل دونوں پہلوانوں کا لوہاری دروازہ سے جلوس نکالا گیا۔ پہلوان اور ان کے حواری تانگوں پر سوار ہو کر دنگل گاہ کی طرف سلامی دینے گئے۔ بڑے دنگل سے ایک روز قبل شام کے وقت پہلوانوں کا یہ جلوس بڑے محظوظ کن نظارے لئے شہر بھر میں گھومتا اور ان کے پرستار ان پر پھولوں کی بارش کیا کرتے۔ یہ روایت آج بھی زندہ ہے مگر اب اس کے تقاضے اور انداز بدل چکے ہیں۔
وقت مقررہ پر دونوں پہلوان خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے۔ بھولو نے علیم پہلوان کے گرد ایک چکر لگایا اور جارحانہ انداز میں آگے بڑھ کر علیم کے پٹ کھینچ لئے۔ یہ سب آناً فاناً ہوا۔ علیم پہلوان چاروں شانے چت ہو گیا۔ بھولو کی اس برق رفتار کامیابی پر خوب جشن منایا گیا۔ لاہور بھر میں گاماں امام بخش اور حمیدا پہلوان کی دعوتیں ہوتی رہیں اور انہیں بھولو کی اس شاندار کامیابی پر انعام سے نوازا گیا۔
انہی دنوں گاماں پہلوان نے بھولو کو مانگ لیا اور اپنی بیٹی سے اس کی منگنی کر دی۔ گاماں کے اہل خانہ لاہور رہتے تھے اور جب کبھی انہیں مہاراجہ بلاتا تو پٹیالہ چلے جاتے۔ امام بخش نے اپنی سسرال امرتسر میں ہی رہائش اختیار کر لی تھی۔ بھولو اگرچہ لاہور میں پیدا ہوا لیکن دوسرے بچے امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امام بخش کی حویلی کٹڑہ کرم سنگھ امرتسر میں تھی۔ ایک روز امام بخش اپنے اہل خانہ کے ساتھ تانگے پر سوار ہو کر اپنی سسرال جا رہا تھا۔ بھولو اور تمام بچے موسم اور ماحول کا نظارہ لے رہے تھے۔ تانگہ ایک پرسکون سڑک سے گزر رہا تھا جب اچانک ایک بغلی سڑک سے سکھوں کا تانگہ نکل آیا۔ تمام سکھ نشے میں بدمست تھے۔ انہوں نے تانگے پر امام بخش اور ساتھ چند عورتوں کو دیکھا تو شور شرابہ کرنے لگے۔ بھولو ان کی اس حرکت پر سیخ پا ہو گیا لیکن امام بخش نے اسے تسلی دی۔
’’پتر حوصلہ کر۔ ان حرام زادوں کو جانے دے‘‘۔
سکھوں نے اپنا تانگہ امام بخش کے تانگے کے آگے آگے رواں رکھا اور پھر اچانک اس کو روک لیا۔ جواب میں امام بخش کے کوچوان نے بھی اپنے گھوڑے کی لگامیں کھنیچیں تو تانگہ یکدم رکنے کی وجہ سے بچے اپنی سیٹوں سے اچھل کر نیچے جا گرے۔ اب بھولو سے رکنا محال تھا۔ وہ چھلانگ لگا کر نیچے کودا اور سکھوں کی طرف بڑھا۔ ایک سکھ تانگے پر کھڑا ہو گیا اور دیسی شراب کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کر ببلیاں لگانے لگا۔ بھولو کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ ان کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
’’بھولو پتر ذرا ہوش میں رہنا‘‘۔ عقب سے امام بخش کی آواز آئی مگر بھولو کی سماعت غصے سے بند ہو چکی تھی اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ اس نے تانگے کی عقبی سیٹ پر بیٹھے ایک سکھ کو گریبان سے پکڑا اور اس زور سے جھٹکا دیا کہ اچھے ڈیل ڈول کا سکھ نوجوان ہوا میں اڑتا ہوا سڑک پر جا گرا۔
’’بدبختو! تم نے موت کو ماسی کہہ کر اچھا نہیں کیا‘‘۔ بھولو نے اپنا پاؤں تانگے کے پچھلے پائیدان پر رکھا اور اسے زور سے آگے کی جانب دھکا دیا۔ ’’میں ابھی تمہارا نشہ دور کرتا ہوں‘‘۔
تانگہ دھکا لگنے سے آگے کی طرف بڑھا تو کوچوان نے اچانک گھوڑے کو چھانٹا رسید کر دیا۔ گھوڑا سیخ پا ہو گیا اور الٹے قدموں تیزی سے پیچھے کو ہٹا اور اس کا تیز پائیدان عقب میں کھڑے بھولو کی ران میں گھس گیا۔ بھولو کو گہرا زخم آیا اور وہ سڑک کے ایک جانب گر گیا۔
بھولو زخم کی پرواہ کئے بغیر اٹھا اور تانگے کی طرف دوڑا۔ امام بخش نے اسے راستے میں ہی پکڑ لیا۔ ’’نہیں پتر ہوش کر‘‘۔
’’ابا جی۔ مجھے چھوڑ دیں۔ میں ان کو زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
اسی اثناء میں ایک نشہ باز سکھ نے ذرا غور سے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ ’’اوئے تسی کی کر بیٹھے او‘‘۔ اس نے ساتھیوں کو بتایا۔ ’’اے تے امام بخش شیر ببر ہیں‘‘۔
دوسرے سکھوں نے سنا تو ان کا نشہ ہرن ہو گیا۔
’’اوئے دڑک لگاؤ‘‘۔ سکھوں نے کوچوان سے کہا اور ان کا تانگہ نظروں سے غائب ہو گیا۔
امام بخش نے اپنے باحوصلہ فرزند بھولو کو گود میں اٹھانا چاہا۔ بھولو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ابا جی۔ میں چل کر جاؤں گا‘‘۔
’’او میں تیرے صدقے جاواں‘‘۔ امام بخش نے فرزند کا منہ چوما اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تانگے پر سوار کیا۔ ان کا تانگہ شفا خانہ کی جانب سرپٹ بھاگ پڑا۔ بھولو کی ران سے خون فوارے کی طرح ابل رہا تھا۔ والدہ نے اپنی چادر پھاڑ کر بھولو کی ران کے اوپر باندھی تاکہ خون رک سکے مگر خون تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بھولو کمال صبر سے اپنی تکلیف کو پی رہا تھا اور غمزدہ ماں اور بھائی بہنوں کو دلاسہ دے رہا تھا۔
’’ست خیراں نے مجھے تو مولا مشکل کشا کا تھاپڑا ملا ہوا ہے، مجھے کچھ نہیں ہو گا‘‘۔
خون بے تحاشا بہہ چکا تھا جب امام بخش بھولو کو لے کر شفا خانے پہنچا۔ شفاخانے میں ہلچل مچل گئی اور ڈاکٹر بھاگم بھاگ بھولو کی طرف بڑھے اور اسے جراحی کے شعبہ میں لے گئے۔ ڈاکٹر نے بھولو کے زرد ہوتے چہرے کو دیکھا اور پھر اس کے زخم کی طرف متوجہ ہو گیا۔
امام بخش گھبرا کر بولا۔ ’’ڈاکٹر بابو۔ میرے شیر کو بچا لو‘‘۔
’’پہلوان جی۔ خون تو بہت بہہ گیا ہے مگر تشویش کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر نے تسلی دی۔ شکر کریں کہ بڑی رگ نہیں کٹی ورنہ خطرہ بڑھ جاتا‘‘۔
ڈاکٹر نے بھولو کا زخم سیا اور ایک روز شفاخانے میں رکھنے کے بعد دوسرے روز گھر بھیج دیا۔
بھولو کے زخمی ہونے کا واقعہ سن کر امرتسر کے جوشیلے مسلمان سکھوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا ایک گروہ حمیدا پہلوان اور امام بخش پہلوان کے پاس پہنچا۔ اس دوران گاماں پہلوان بھی خبر سن کر امرتسر پہنچ گیا تھا۔
’’پترو کوئی گڑبڑ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ گاماں نے لڑکوں سے کہا۔ ’’اللہ نے جان بچا لی ہے یہی کافی ہے‘‘۔
’’مگر پہلوان جی سکھوں نے بڑی غلط حرکت کی ہے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا۔ ’’اگر آج ان کے ہاتھ نہ روکے گئے تو کل کو اور گڑبڑ کریں گے۔اس طرح تو ہماری بیبیوں کا باہر نکلنا خطرناک ہو جائے گا‘‘۔
’’جوانو صبر کرو۔ اللہ کرم کرے گا‘‘۔ امام بخش نے انہیں سمجھنا چاہا۔ ’’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی شورش پیدا ہو۔ سکھ اور ہندو تو پہلے ہی ایسے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ جب سے تحریک پاکستان عروج پر ہے سکھوں اور ہندوؤں کو ایک پل چین نہیں آ رہا۔قائداعظم نے بھی منع فرمایا ہے کہ ان فسادات کو ہوا نہ دو اور صبر سے کام لو۔ میں اپنے قائد کا کہا نہیں ٹال سکتا۔ چونکہ یہ معاملہ ذاتی نوعیت کا ہے اس لئے میں اس کو سیاسی نہیں بناؤں گا۔ خدا نہ کرے اگر ہم سکھوں سے بازپرس کرتے ہیں تو فسادات کے نتیجے میں خون خرابہ ہو گا اور خدا جانے اس میں پھر ہمارے ہی کسی جوان کا خون بہہ جائے۔ پترو، تم حوصلہ رکھو۔ جان ہے تو جان ہے اور ہمارا جہان اس وقت پاکستان ہے۔ ہمیں اس کیلئے اپنی جانوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ مجھے بھولو کے زخمی اور فی الحال کشتیوں سے ناکارہ ہونے کا بہت صدمہ ہے مگر اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے کرم سے ہم اس آزمائش میں سے بھی گزر جائیں گے‘‘۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)