وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 18
میراں بخش نے راجہ کا حکم پاتے ہی آرام طلبی کا لبادہ اتار پھینکا اور بھاگم بھاگ امرتسر میں اپنے آبائی اکھاڑے بھکی والاباغ اکالیاں میں پہنچ کر زور و شور سے تیاری شروع کر دی۔وقت کم اور مقابلہ خطرناک تھا لہٰذا تیاری کرانے کے لیے میراں بخش کے والدامیر بخش ،بڑا چچا عزیز الدین اور چھوٹا چچا محمد بخش عرف محمدی پہلوان جو کہ جموں دربار سے منسلک تھا، وہ بھی بھتیجے کو تیار کرانے کے لئے آگیا۔ ان پہلوانوں کی امداد کوبھی ناکافی خیال کیا گیا اور بھکی والاخاندان کو آن اور اعزاز کو کیکر سنگھ کی وحشت سے بچانے کے لئے بھکی والا خاندان کے دوسرے پہلوان بھی اپنے اپنے درباروں سے رخصت لے کر امرتسر آگئے۔ ان میں حبیب پہلوان،جھنڈا پہلوان،فتح دین پہلوان، احمد بخش جالندھری اور لبھو لوہاربھی شامل تھے۔لبھو لوہار اپنے وقت کا شہ زور تھا۔ اس نے18ستمبر1910ء کو کیکر سنگھ سے امرتسر میں کشتی لڑی تھی جو کافی زوروں کے بعد برابر چھڑا دی گئی تھی۔
ایک سال اور ایک ماہ تک میراں بخش کو اکھاڑے سے ہلنے نہ دیا گیااور اتنے زور کرائے کہ تو ند غائب ہو گئی اور کاہلانہ آثار ختم ہو گئے اور وہ پھر سے جوان،تنو مند اور جوشیلا نظر آنے لگا۔
وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
الہ آباد کا دنگل شروع ہو چکا تھا۔ دنگل میں بڑی عظیم الشان اور بین الاقوامی نمائشوں کا بھی اہتمام تھا۔ اس میں نئی نئی مصنوعات کے علاوہ پہلی بار ہندوستان میں ہوائی جہاز کو بھی متعارف کرایا گیا تھا۔بہت سی چیزوں کے علاوہ طرح طرح کے تفریحی سامان بھی مہیا کئے گئے تھے جن میں ہندوستان بھر کی ریاستوں کے بڑے بڑے پہلوان بھی میدان میں اترے۔(اسی دنگل میں بین الاقوامی مقابلے جیتنے کے بعد واپسی پر رستم زماں گاماں پہلوان نے رحیم بخش سلطانی والاکو چوتھی بار دعوت مبارزت دی اور شکست سے دو چار کیا۔ یہ گاماں کے عروج کی بات ہے۔ اس وقت اس کی عمر اکتیس بتیس کے قریب تھی)
دنگل کا سماں دیکھنے کے لائق تھا۔ انگریز بہادر اورریاستوں کے راجے مہاراجے اپنی نشستوں پر براجمان بڑے محظوظ ہو رہتے تھے۔ جب میراں بخش اور کیکر سنگھ اکھاڑے میں اترے تو دیکھنے والوں نے اشارہ دیا کہ یہ ہاتھی اورچیتے میں مقابلہ ہو گا۔ اس زمانے میں کیکر سنگھ کا وزن سات من سے بڑھ کر آٹھ من ہوچکا تھا جبکہ میراں بخش اس کا چوتھائی تھا۔
کیکر سنگھ ایک مضبوط ستون کی طرح اکھاڑے میں جم گیا تھا اور میراں بخش اسے ہراساں کرنے کے لئے اس کے چاروں طرف چکر لگانے لگا۔مگر کیکر سنگھ اپنی جگہ سے ذرا نہ ہلا۔ میراں بخش نے پہل کی اور پھر دونوں ایک دوسرے سے گتھ گتھا ہو گئے۔
میراں بخش نے یکدم کیکر سنگھ کو کمر سے پکڑ لیا مگر کیکر سنگھ کی کمر کا گھیرا بہت بڑاتھا۔ اس نے ذرا سا جھٹکا دیا اور میراں بخش کی گرفت سے نکل گیا۔ میراں بخش کو کیکر سنگھ کی یہ حرکت ناگوار گزری اور اس نے اسی داؤ کے ذریعے اسے گرانے کا فیصلہ کیا اور پھر اس نے ایسا ہی کر دکھایا۔ میراں بخش نے جب جپھے میں اسے جکڑا اور پوری طاقت صرف کرکے کیکر سنگھ کو جھکاناشروع کر دیا اور آخر سخی مارکر نیچے گرا لیا۔ چشم زدن میں وہ کیکر سنگھ پریوں سوار نظر آیا جیسے لڑائی کے دوران ہاتھی پر شیر سواری ڈالتا ہے۔ چند ہی لمحوں بعد میراں بخش نے اپنا گھٹنا کیکر سنگھ کی گردن پررکھا اور ایک ہاتھ سے اس کے جانگئے میں ڈال کر اسے صاف زمین سے اٹھالیا اور پھر اسے اکھاڑے میں الٹ دیا۔ کیکر سنگھ کو جس انداز میں شکست ہوئی وہ سب سے بدترین تھی۔۔۔اور یہ میراں بخش ہی تھا جس نے چند منٹ میں ہی کیکر سنگھ کو چت کر دیا ورنہ اس سے قبل کیکر سنگھ کی جس سے بھی کشتی ہوئی،کم از کم پون گھنٹہ سے کم نہ ہوئی اور کئی بارتو اڑھائی گھنٹے تک ہوتی رہی تھیں۔
یہ گاماں کے استاد میراں بخش کے فن اور شاہ زوری کا کمال تھا اور اسی درجہ کمال کی وجہ سے گاماں ریاست ریواں(عمرپندرہ سال)میں4سال تک کسب فیض پاتا رہا۔
گاماں جب اپنے محسن راجہ بھوانی سنگھ والئی دتیہ کو یہ کہہ کر آیا تھا کہ وہ اپنی شاہ زوری کی دھاک بٹھانے کے ارادے سے دوسری ریاستوں میں جارہا ہے، اس وقت اس کے ذہن میں یہ خیال نہ تھا کہ وہ ریاست ریواں میں ایک نابغہ روز گار سے ملے گا۔۔۔ یہاں پہنچ کر اسے ایک بڑے پہلوان سے ایسی تربیت ملی کہ اس کی زندگی سنور گئی۔ خاص طور ریاست کے راجہ، بنکسیٹراون پر تاب سنگھ نے گاماں پر بہت شفقت کی اور گاماں بھی ان کا شیدائی ہو گیا۔ پرتاب سنگھ ایک نہایت ہی نیک سیرت، بااخلاق اور انصاف پسند راجہ تھا۔ ریاست کے ہر فرد کی زبان پر اس کی تعریف تھی۔یہی وجہ تھی کہ رعایا بہت خوشحال اور مطمئن تھی۔
راجہ پرتاب سنگھ کے دور میں گاماں کے والد عزیز بخش پہلوان کئی بار اس ریاست کا دورہ کر چکے تھے۔ یہاں ان کے کئی بڑے مقابلے ھی ہوئے تھے اورراجہ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات بھی ملے تھے۔ عزیز بخش پہلوان جب بھی واپس ریاست دتیہ جاتے تو اکثر گاماں کو ریاست ریواں کے واقعات سناتے جس سے ننھے گاماں کا دل مچل جاتا اوروہ ریواں دیکھنے کی خواہش کرتا۔ عزیز بخش پہلوان کوریاست ریواں اس قدر پسند تھی کہ اگر دتیہ کا راجہ بھوانی سنگھ انہیں اپنی ریاست میں مکمل سکونت اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا تووہ یقیناً ریاست ریواں کو ہی پسند کرتے ۔یہی وجہ تھی کہ گاماں جب ریاست ریواں میں وارد ہوا تو بچپن کی خواہش کی تکمیل ہو گئی۔ یہاں اسے میراں بخش جیسا استاد فن ملا تو دوسری طرف پرتاب سنگھ جیسا بااخلاق اور مہمان نواز سرپرست بھی مل گیا۔ گاماں راجہ سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ جس عزم کے تحت راست دتیہ سے چلاتھا، وہ رہ گیا اور پھر مسلسل چار سال تک اس ریاست میں قیام کیا۔ یہ بات واقعی تعجب آمیز تھی کہ ایک ایسا با حوصلہ اورعملی انسان جس نے سات سال کی عمر سے پسندرہ سال کی عمر تک باقاعدگی سے اپنی تمناؤں کی تکمیل کے لئے جدوجہد کی، اس کا اپنے فرض سے غافل ہو جانا حیران کر دینے کے مترادف تھا۔ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ وہ والئی ریواں کی انسان دوستی اور حسن سلوک سے متاثر تھا۔ گاماں اس بارے میں کہا کرتے تھے۔’’جس طرح میرے بڑے ماموں عیداپہلوان نے مجھے فن پہلوانی کا درس دیا تھا اسی طرح راجہ پرتاب سنگھ نے میری طبیعت اور مزاج کی اصلاح کی ہے۔ مجھے اخلاق و محبت، سادگی، سچائی اورفرض شناسی کا سبق دیا ہے۔اگر میں نے ان کی قربت میں اپنی زندگی کے قیمتی چار سال گزار دیئے تھے تو وہ بے معنی نہ تھے۔ راجہ پرتاب سنگھ کی قربت اور محبت نے مجھے ایک نئی زندگی اور ایک نیا انسانی زاویہ نظر عطا کیا۔ آدمی تو میں تھا لیکن اس ماحول نے مجھ کو انسان بنا دیا۔ انسان پیدا نہیں ہوتا بلکہ بنتا ہے اور بنایا جاتا ہے۔‘‘
***
ریاست ریواں میں قیام کے دوران گاماں بڑے پہلوانوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے مچلتا مگر میراں بخش اسے دھیمی چال چلنا سکھاتا۔ میراں بخش کے بعد رحیم سلطانی والا کا بہت چرچا تھا جو ریاست جوناگڑھ کے دربار سے منسلک تھا۔ گاماں نے اس نامی گرامی پہلوان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ وہ رحیم سلطانی والا سے مقابلہ کرنے کے لئے بے تاب تھا۔ جب اس نے اپنی اس خواہش کا ذکر میراں بخش سے کیا تو اس نے گاماں کی حسرت پوری کرنے کے لیے اسے خوب زورکرائے اور فن سے نوازا۔
گاماں کی عمر19سال ہو چکی تھی۔ جب راجہ پرتاب سنگھ فوت ہوا۔ اسے اپنے شفیق راجہ کی وفات کا گہرا صدمہ ہوا۔ چند ہفتے ریاست ریواں میں رہا۔ اس دوران خبر آئی کہ جوناگڑھ میں اعلیٰ پیمانے پر کچھ دنگل ہونے والے ہیں۔ یہ غالباً1896ء ،1897ء کا دور تھا۔ گاماں اور امام بخش دونوں بھائی واپس ریاست دتیہ اپنے مربی راجہ بھوانی سنگھ کے پاس چلے گئے۔
راجہ بھوانی سنگھ نے ہمیشہ کی طرح بڑی فراخدلی سے اپنے عزیز کے گاماں کا استقبال کیا۔ایک آدھ ہفتہ کے بعد گاماں نے راجہ بھوانی سنگھ سے ملاقات کی ٹھانی اورملاقات کے لئے پہنچ گیا۔ راجہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھا۔ اس نے گاماں سے پوچھا۔’’آؤ گامے۔۔۔خیر تو ہے۔۔۔ کچھ فکر مند دکھائی دیتے ہو!‘‘
گاماں مودب ہو کر بولا۔’’ہاں حضور فکر تو دامن گیر ہے۔‘‘
’’کیا فکر پڑ گئی ہمارے شیر کو۔۔۔ذرا ہم بھی تو سنیں۔ ‘‘راجہ نے چونک کر پوچھا۔
’’حضور آپ کی کرم نوازیاں بے پایاں ہیں۔‘‘گاماں نے حرف مدعا کے لئے الفاظ جوڑے۔ ’’آپ نے مجھے ہر طرح مکمل پایا ہے۔ بارہ سال تک میں نے ریاضت کی ہے مجھے صحیح طرح سے اندازہ نہیں کہ میں اس فن میں کس حد تک پختگی اور مہارات حاصل کر چکا ہوں۔۔۔ اب مجھے خود کو آزمانے کا موقع درکار ہے اوریہ موقع خدا نے پیدا کر دیا ہے۔۔۔میرا دل کئی سالوں سے جس خواہش کے لئے مچل رہا تھا اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ بس اب قسمت آزمائی کے لئے پہلا قدم اٹھانے کی اجازت چاہئے۔‘‘
راجہ نے گاماں کو دیکھا اور حلیمی سے کہا۔’’تمہارا اشارہ جوناگڑھ کے مقابلوں کی طرف تو نہیں ہے۔‘‘
’’جی حضور۔۔۔ اس دنگل میں ہندوستان کے اچھے اچھے نامور پہلوان حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
راجہ نے کہا۔’’مگر میں تو چاہتا ہوں کہ تمہاری پہلی بقاعدہ کشتی کا آغاز ریاست دتیہ سے ہی ہو۔‘‘
گاماں نے کہا۔ ’’آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ مگر حضور غور کیجئے کہ میری پہلی کشتی کا آغاز خواہ کہیں سے بھی ہو، میں تو اسی ریاست کا پہلوان ہوں۔ظاہر ہے کہ اس ریاست کا ذکر ہر جگہ پہلے آئے گا۔‘‘
راجہ نے ایک لمحہ کے لئے سوچا اور پوچھا۔’’تو پھر کیا چاہتا ہے ؟‘‘
’’بس اجازت چاہئے۔ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ تقریباً تمام پہلوان جوناگڑھ پہنچ چکے ہیں۔‘‘
راجہ نے اپنے پہلو کی جانب نشست پر بیٹھے ولی عہد گووندسنگھ کو دیکھا۔ ولی عہد گاماں کا دوست تھا اور دونوں اکٹھے اکھاڑہ کیا کرتے تھے۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔
’’پتا جی گاماں کو روکنا نہیں چاہئے۔ یہ اپنے ارادے کا اٹل ہے۔ہمارے حکم پر رک تو جائے گا مگر اندر سے ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔۔۔بس آپ اسے جانے ہی دیں۔‘‘
راجہ بھوانی سنگھ نے گووند سنگھ کی بات پر غور کیا اور گاماں کو جوناگڑھ جانے کی اجازت دے دی۔
گاماں اجازت ملنے پر نہال ہو گیا اور ناچتا ہوا ماموں عیداپہلوان کے پاس پہنچا اور کہا۔’’ماموں جان راجہ صاحب نے مجھے جوناگڑھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اب میرے لئے آپ کی ضروری ہدایات کیا ہیں؟‘‘
عیدا پہلوان نے گاماں کے سر پر ہاتھ پھیرا اورکہا۔’’جا میرے شیر،اپنے مرحوم باپ کی دلی خواہشات کو تکمیل تک پہنچاؤ۔ اپنے فرض سے ہر گز غافل نہ ہونا۔بس میری پہلی اور آخری ہدایات یہی ہیں۔‘‘
گاماں نے امام بخش کو بھی ساتھ لیا اور جوناگڑھ پہنچ گئے۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں