وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 20
رحیم بخش نے شفقت بھری نظروں سے گاماں کو دیکھا اور مسکرا دیا۔ اسے پر اعتماد گاماں کا یہ چیلنج بڑا پسند آیا اور اسے قبول کرلیا۔ رحیم بخش کا یہ چیلنج قبول کرنا فراخدالی کا ثبوت تھا۔ اگر چاہتا تو یہ کہہ کر رد کر سکتا تھا کہ پہلے میرے کسی شاگرد سے لڑو۔ مگر وہ جس کینڈے کا پہلوان تھا اس کا مان تبھی رہ سکتا تھا جب اس دعوت مبارزت کوقبول کرتا۔
رحیم بخش یہ کہہ کر بھی مقابلہ ٹال سکتا تھا کہ وہ گزشتہ پندرہ دنوں میں درجنوں پہلوان گرا چکا ہے اوراب تھک چکا ہے مگر یہ کہنا اس کی پہلوانی کی شان کے خلاف تھا۔ رحیم بخش نے لازماً اس تناظر میں سوچا اور پھر یہ خیال کیا کہ جہاں میں اس پہلوان سے بڑے پہلوانوں کو چند منٹوں میں گرا چکا ہوں وہاں اس کی حیثیت کیا ہے۔
رحیم بخش اپنے روایتی انداز میں ایک بار پھر میدان میں آیا اورگاماں کے مقابل آکھڑا ہوا۔ ہزاروں تماشائی اس عجوبہ نما چیلنج کا نتیجہ پہلے ہی سے اخذ کر چکے تھے کہ یہ بالکا رحیم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر ٹھہر بھی گیا تو دو سے تین منٹ ہی نکال سکے گا۔ دیکھنے والوں کا یہ اندازہ درست ہی دکھائی دیتا تھا کیونکہ یہ مقابلہ چڑیااور باز کے درمیان تھا۔
رحیم نے گاماں کو بھری نظروں سے دیکھا اور پھر اسے یوں دبو چا جیسے شیر خرگوش کو دبوچ لیتا ہے۔ ادھر فلک شگاف نعرہ بلند ہوا،’’وہ گیا‘‘مگر وہ کہیں نہ گیا اور رحیم اسے رگید کررہ گیا اور پھر رگید نے کا یہ علم طویل ہوتا گیا۔ دس منٹ گزر گئے اور تماشائیوں نے انگلیاں مارے حیرت کے منہ میں داب لیں کہ میں نے کیا سوچا اور یہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رحیم نے رگیدنے کا عمل چھوڑا اور گاماں پر سواری ڈال لی۔ رحیم نے گاماں کی دونوں ٹانگوں کے تلے اپنی دونوں ٹانگیں ڈال کر پاؤں چڑھا رکھا تھا۔ اگرچہ یہ چت کر دینے والا داؤ نہیں ہوتا مگر نیچے والا پہلوان سواری کی رسوائی سے ہی شرمندہ ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھاری بھر کم پہلوان اوپر ہو اور نیچے والا اس سے کئی گنا کم وزن میں ہو تو اسے سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ سواری کا توڑ ناممکن ہے سب کا خیال تھا کہ گاماں رحیم کی سواری سے نہیں نکل سکتا کیونکہ رحیم کی سواری ڈالے بارہ منٹ گزر چکے تھے۔ چاہئے تو یہ تھا گاماں رحیم کے بوجھ تلے دب کر اپنی شکست مان لیتا مگر یہ اس کے وقار کے خلاف تھا۔ اس دوران گاماں اپنی بغلیں بند کر چکا تھا تاکہ رحیم بغل میں ہاتھ ڈال کر کھوا چڑھا کر چت نہ کر دے۔ رحیم نے ہر ممکن کوشش کرڈالی کہ گاماں کو الٹ دیا جائے مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔ پھر اس نے گاماں کے منہ پر پٹی ڈالنا چاہی تو گاماں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ایک ہاتھ گاماں کی گرفت میں آجانے سے رحیم کا داؤ دھرے کا دھرارہ گیا۔ گاماں نے کلائی کچھ اتنی طاقت سے پکڑی تھی کہ رحیم کو اندازہ ہو گیا ،یہ بالکا غیر معمولی پہلوان ہے۔ گاماں اب سواری سے نکلنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے رحیم کی کلائی مروڑ دی۔ رحیم کلائی میں بل پڑنے سے کسمسایا اور دوسرے ہی لمحہ گاماں سواری کی رسوا کن داؤ توڑ کر کھڑا ہو گیا۔ تماشائی گاماں کی اس پھرتی اور ہمت پرداد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
رحیم بخش کے وقار کا مسئلہ آن پڑا تھا۔ اس نے اپنے تیئیں خیال کیا تھا کہ وہ گاماں کو چند سکینڈ میں گرادے گا مگر یہاں تو نتیجہ کچھ اور ہی نکل رہا تھا۔ اپنے سے کم عمر اور غیر مشہور پہلوان کا اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہی اس جیسے بڑے پہلوان کے لئے رسوائی کی بات تھی۔
گاماں نے سواری سے نکل کر اپنا مخصوص داؤ’’پٹ کھنچینا‘‘آزمایا۔ مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ رحیم بخش گاماں کے داؤ سے چونک اٹھا اور بغلیں بھریں مگر گاماں نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی گردن پر ڈالا اور بائیں ہاتھ سے اس کے جانگیہ کو پکڑ لیا پھر اس نے رحیم کی گردن کو اپنی دائیں طرف کھینچا اور نیچے سے جانگیہ پکڑ کر رحیم کو اٹھا کر چت کرنے کی کوشش کی۔رحیم بھی آخر رستم ہند تھا اس نے جھٹ سے گاماں سے خود کو چھڑایا اس بار وہ اپنے تجربہ اور طاقت کی بنا پر گاماں کے داؤ سے نکالا اور موس مارکرگاماں کو آگے رکھ لیا اور گھسے پر گھسا مارا۔
اس بار گاماں نے نیچے سے داؤ آزمانے شروع کئے۔ گاماں کی قوت مدافعت اور جارحیت حیران کن حد تک بڑھ گئی۔ یونہی دس منٹ گزر گئے گاماں رحیم کے نیچے سے نہ نکل سکا تو نواب صاحب نے منصف کو کشتی چھڑانے کا اشارہ کیا مگر گاماں تو بپھرا ہوا تھا۔ اس نے منصف کو آنکھیں دکھائیں۔’’یہ نہیں ہو سکتا۔ اپنے رستم سے کہو مجھے چت کرے یا مجھے تھوڑا وقت دو کہ اس کا حصار توڑ کر دکھاؤں۔‘‘
رحیم نے گاماں کو گھسا مارا اور غصے سے چلایا۔’’میں تیری یہ حسرت پوری کرکے ہی چھوڑوں گا۔میں دیکھتا ہوں تو میرے حصار سے کیسے نکلتا ہے۔‘‘پھر اس نے منتظم کو اشارہ کیا۔’’آپ پرے ٹھہریں۔یہ کشتی فیصلہ کن ہی ہو گی۔‘‘
دونوں پہلوان یونہی ایک دوسرے کوچھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ ہار جیت کا فیصلہ ہر صورت میں ہونا تھا۔ رحیم نے گھسے مار مار کر گاماں کو نڈھال کرنے کی کوشش کرڈالی اور پھر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر جانگیہ میں ہاتھ ڈالا اور پلٹنے کی کوشش کرنا چاہی مگر گاماں نے اپنا سرزمین پرٹکا دیا اور ساتھ ہی دونوں ہاتھ بھی زمین پر رکھ دیئے۔ یہی اس داؤ کا توڑ تھا۔ رحیم چت کرنے کے لئے جتنا اسے اوپر اٹھاتا گاماں اتنا ہی اس کی گرفت سے نکلتا گیا اور پھراس نے ایسا حربہ استعمال کیا کہ رحیم دیکھتا رہ گیا اور گاماں خم ٹھونک کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔
رحیم کو بھی چھٹی کا دودھ یاد آگیا تھا۔ کسی بڑے پہلوان کی رسوائی کے لئے کافی ہوتا تھا کہ ایک نیا اور تجربہ میں کم عمر پہلوان اس سے نہ گرے۔ دونوں پہلوانوں کی کشتی کو نصف گھنٹہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔ نواب محمد رسول خاں نے ایک بار پھر مداخلت کی اور یہ کہتے ہوئے دونوں کو چھڑا دیا۔
’’یہ مقابلہ ہمارے لئے حیران کن ہے دونوں خوب لڑے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ دونوں میں ایک بار پھر ٹکراؤ ہو جوفیصلہ کن ہونا چاہئے۔ ہم بڑی بے چینی سے اس دن کا انتظار کریں گے۔‘‘
رحیم بخش جب اکھاڑے سے باہر نکلا تو مارے ندامت کے نڈھال ہو چکا تھا۔ اس کے بازوشل تھے اور اس سے اپنے سر پر ٹھیک سے پگڑی نہیں باندھی جاہی تھی۔ انیس برس کے ایک لڑکے نے اس پہاڑ کو ہلاکر جو رکھ دیا تھا۔
یہ کشتی گاماں کی شہرت کا باعث بن گئی۔ اس نے خاموشی سے جو فیصلہ کیا تھا اس میں کامیاب رہا تھا۔گاماں شاد شاد واپس ریاست دتیہ پہنچا۔جہاں اس کو چاہنے والا راجہ اس کے استقبال کے لئے کھڑا تھا۔
رحیم بخش کے ساتھ گاماں کے مقابلے کی دھوم اس سے قبل ہی راجہ تک پہنچ گئی تھی۔ اپنے عزیز کے گامے کو فرط مسرت سے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس نے گاماں کو انعامات سے نوراز اور جشن منایا۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں