پہلوانوں کی داستانیں ۔ ۔۔ قسط نمبر 24

پہلوانوں کی داستانیں ۔ ۔۔ قسط نمبر 24
پہلوانوں کی داستانیں ۔ ۔۔ قسط نمبر 24

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور میں مہاراجہ کے درباری پہلوانوں کا اکھاڑہ قاسم خاں کے مقبرے کے ساتھ تھا جہاں وہ پہلوانوں کا زور دیکھنے آتا تھا۔ مہاراجہ نے ایک اکھاڑہ اپنے دارالخلافہ امرتسر میں بنوا رکھا تھا۔ جب وہ امرتسر جاتا تو بلاناغہ پہلوانوں کی ریاضت دیکھتا۔
سلطان پہلوان اپنے درباری لباس میں بڑا وجیہہ اور خوبرو نوجوان دکھائی دیتا تھا۔ ہر وقت چاک و چوبند رہتا اور جب کبھی مہاراجہ شکار پر نکلتا، سلطان پہلوان حفاظت کے خیال سے سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا۔ مہاراجہ شیر سنگھ کے دور کا واقعہ ہے۔ مہاراجہ راوی کنارے شکار کھیلنے گیا۔
سلطان پہلوان اگرچہ گوجرانوالہ چلا گیا تھا مگر شیر کے شکار کا دن آتا تو مہاراجہ اسے بلاوا دے بھیجتا۔ پہلوان عربی نسل کی گھوڑی پر مقررہ وقت پر لاہور آ موجود ہوتا تھا۔
راجوں، مہاراجوں کے شوق بھی نرالے ہوتے ہیں جو ایک بار ان کی زبان سے لفظ نکل جاتا حرف آخر ثابت ہوتا اور اس کی تعمیل ہر صورت میں سب کیلئے لازم ہوتی۔ برسات کے دن تھے۔ مہاراجہ کے دل میں شکار کی خواہش ابھر آئی۔ پیامبر کو صبح کے وقت گوجرانوالہ بھیجا اور شام کے سائے ڈھلنے سے قبل سلطان پہلوان آ گیا۔ بارشوں کے باعث راوی اپنے جوبن پر تھا اور کناروں سے اچھل رہا تھا۔ مہاراجہ کے مصباحوں نے کہا۔

پہلوانوں کی داستانیں ۔ ۔۔ قسط نمبر 23  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’حضور! یہ دن شکار کیلئے مناسب نہیں ہیں۔ راوی کا پانی جنگل میں بھی آ گیا ہے اور نشیبی علاقے سیلاب کی زد میں ہیں‘‘۔
حکم ہوا۔ ’’تو کیا ہوا۔۔۔ یہ شکار ضرور کھیلا جائیگا‘‘۔
حکم حاکم مرگ مفاجات۔۔۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ مہاراجہ شکار پر چل دیا۔ یہ وقت شکار کیلئے انتہائی نامناسب تھا۔ صبح کی روشنی میں شیر کا شکار آسان نہیں ہوتا۔ کجا رات کے اندھیاروں میں یہ جاں لیوا شوق پورا کرنا۔ شومئی قسمت کہ جس طرف مہاراجہ نے شیر کاشکار کھیلنا تھا، راوی کا پانی اسی علاقے کو سیراب کر چکا تھا اور جنگل میں جا بجا پانی کھڑا تھا۔ اس وقت مصباحوں نے مہاراجہ کو سمجھایا۔
’’حضور! پانی زیادہ تو نہیں البتہ گڑھے وغیرہ پانی سے بھر چکے ہیں۔ خطرہ ہے کہ کہیں گھوڑے ان گھڑھوں میں نہ گر جائیں۔
مہاراجہ نے سوچا اور خیال کیا کہ مصاحب درست مشورہ دیتے ہیں مگر بغیر شکار واپس لوٹ جانا مہاراجہ کے خلاف تھا۔ مہاراجہ نے گردوپیش کا جائزہ لیا اور گھوڑے کی باگ اس طرف موڑ لی جس طرف پانی نسبتا کم دکھائی دیتا تھا۔ مصباحوں نے بھی خاموشی سے گھوڑے پیچھے ڈال لئے۔پھر اچانک مہاراجہ کا گھوڑا بدک گیا اور اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ مہاراجہ بہترین گھڑ سوار بھی تھا۔ وہ سمجھ گیا گھوڑا کسی جانور کی بو پا کر بدکا ہے۔ اس نے گھوڑے کو پچکارا مگر گھوڑا ہوا ہو گیا اور آگے جنگل کی طرف سرپٹ دوڑنے لگا۔
مہاراجہ کے ساتھیوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گئے۔ اس وقت تک اندھیرا کافی پھیل چکا تھا۔ روشنی کیلئے کافوری شمعیں ان کے پاس تھیں۔ سلطان پہلوان نے صورتحال کو بھانپ لیا اور ایک محافظ کے ہاتھوں سے کافوری شمع لے کر اپنی گھوڑی اسی طرف ڈال دی جس طرف مہاراجہ کا گھوڑا بھاگ تھا۔ تقلید میں دوسرے ساتھیوں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔
سلطان پہلوان کی گھوڑی گھنے درختوں کے جھنڈ پاکر کے اس جگہ آ پہنچی جہاں مہاراجہ کا گھوڑا گھڑا تھا مگر اس کی پیٹھ پر مہاراجہ نہیں تھا۔ سلطان نے پریشانی کے عالم میں گھوڑی کو دائرے کی صورت میں گھمایا۔ معاً اس کے کانوں میں مہاراجہ کی آواز پڑی۔
’’کوئی ہے۔۔۔کوئی‘‘۔
سلطان چلایا ’’حضور میں آیا‘‘۔ سلطان پہلوان نے آواز کی سمت رخ پھیرا۔اس نے کافوری شمع کو اپنے سر پر گھمایا جس سے روشنی گردوپیش میں پھیل گئی۔ اسی دوران ان کے دوسرے ساتھی بھی ادھر آ پہنچے جس سے روشنی میں اضافہ ہو گیا اور اردگرد میں ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی۔ سلطان گھوڑے سے نیچے اترا اور ان جھاڑیوں کی طرف بڑھا جس طرف سے مہاراجہ کی آواز آئی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے شمع اور دوسرے میں تلوار تھام رکھی تھی۔ جھاڑیوں میں بری طرح سے ہلچل مچی ہوئی تھی۔ سلطان تلوار کی نوک سے جھاڑیوں میں راستہ بنا کر آگے بڑھا تو دیکھا مہاراجہ کے گرد ایک اژدھا لپٹا ہوا ہے مہاراجہ اس کی گردن پر ہاتھ جمائے دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔سلطان جھٹ سے مہاراجہ کے سر پر پہنچا اژدھے کی گرفت سے آزاد کرانے لگا۔ اس نے تلوار میان میں ڈالی اور روشنی اپنے پیچھے آنے والوں کو پکڑا دی۔ پھر دونوں ہاتھوں سے مہاراج کے ہاتھوں سے اژدھے کی گردن دبوچ لیا اور اس زور سے دبائی کہ اژدھے کے اس عمل سے چٹخنے لگیں۔سلطان نے جان لیا کہ اگر اس نے اژدھے کو اس طرح مارنے کی کوشش کی تو مہاراجہ کی جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس نے مہاراجہ کو نیچے گرنے کا اشارہ کیا۔ مہاراجہ اژدھا کی جکڑ میں تھا۔ خود سے نیچے گرنا اب اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ سلطان پہلوان نے مہاراجہ کی طرف دیکھا جو اژدھے کی لپیٹ میں نڈھال ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اژدھے کی گردن پر زور ڈالا اور قریب کھڑے مہاراجہ کو اپنا مخصوص داؤ ٹانگیں مار کر نیچے گرا دیا۔ پھر اس نے اژدھے کی گردن پر اپنے پاؤں کا وزن ڈالا اور ہاتھوں سے اژدھے کو دم سے پکڑ کر مہاراجہ کے گرد سے اس کے بل کھولنے لگا۔
چند منٹوں کی کوشش کے بعد مہاراجہ آزاد ہو گیا اور محافظ اسے اٹھا کر جھاڑیوں سے دور لے گئے۔ ادھر سلطان پہلوان نے اژدھے کی گردن پر پاؤں رکھا تھا اور اس کی دم کو ہاتھوں سے پکڑا رکھا تھا۔ اژدھا سات فٹ کے قریب لمبا تھا۔ اس کا وزن کم از کم تین من کے قریب تھا۔اژدھے نے اپنی قوت دکھائی اور دم کو ایسا جھٹکا دیا کہ سلطان پہلوان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور دوسرے ہی لمحے اژدھا دم کی طرف سے سلطان کے گرد لپٹنے لگا۔سلطان نے اژدھے کا ارادہ بھانپ لیا وہ قدرے جھک گیا لیکن یوں کرنے سے پاؤں اژدھے کی گردن سے ہٹ گیا اور اژدھا ایک طوفانی پھنکار لے کر پورے جوبن سے لہرایا۔ سلطان پہلوان نے جھکے جھکے ہی الٹی قلابازی کھائی اور ساتھ ہی تلوار میان سے نکال لی۔ اژدھا غیض و غضب سے اپنے شکار پر جھپٹا لیکن اب کی بار اس کی جارحیت قائم نہ رہ سکی۔ سلطان پہلوان نے برق رفتاری سے تلوار لہرائی اور چشم زدن میں اژدھا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
سلطان پہلوان نے مہاراجہ کی جان بچا کر بڑا عظیم کارنامہ انجام دیا تھا۔ مہاراجہ شیر دل انسان تھا۔ اتنی دیر تک اژدھے کے ساتھ گتھم گتھا رہنے کے باوجود اپنے حواس میں تھا۔ اس نے سلطان کی جرأت کو سراہا اور اپنا گلے کا ہار اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا۔
’’سلطان تو بڑا پہلوان ہی نہیں ایک اچھا شکاری بھی ہے‘‘۔
سلطان پہلوان مہاراجہ کا منظور نظر تھا۔ اس کی جاگیردار میں اضافہ کیا گیا بلکہ انعامات کی بارش بھی ہو گئی، لیکن سب بہت جلد ختم ہو گیا۔ 1857ء کے بعد تو تمام دربار اجڑ گئے۔ بدیسی حکمرانوں کے ذوق شوق اور ہی طرح کے تھے اس لئے انہوں نے درباروں سے منسلک لوگوں کو ان کی جاگیروں سے محروم کر دیا اور دوسرے اہم لوگوں پر خوب ستم ڈھائے۔ سلطان پہلوان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ اس کی تمام جاگیریں قبضہ میں لے لی گئیں۔ جن لوگوں نے انگریزوں کی چاپلوسی کی وہ اپنی جاگیریں واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر سلطان پہلوان تو درویشی لائن کا بندہ تھا۔ ایسے فقیر طبیعت انسان دنیاوی جاہ و لجلا یا جاگیروں کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ اس لئے اس نے انگریز حکومت میں کوئی پٹیشن نہ کی اور ساری عمر فقیرانہ انداز میں گزار دی۔ (جاری ہے )

پہلوانوں کی داستانیں ۔ ۔۔ قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں