جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر54
ہم سب باہر نکل آئے۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح ہمارے پیچھے آرہا تھا۔ جب ہم گیٹ تک پہنچے تو اس نے آہستہ سے مجھے پکارا۔
’’فاروق بھائی۔۔۔! رات کو اگر تھوڑا سا ٹائم نکال سکیں میرے لئے تو بہت مہربانی ہوگی‘‘ اس نے التجا کی۔
’’اچھا دیکھیں گے‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا اور باہر نکل آیا۔ میں دراصل اسے اچھی طرح سبق دینا چاہتا تھا کہ دوبارہ وہ ایسی حرکت نہ کرے۔ جب ہم گھر پہنچے تو گوری جو کہ بالکل بھیگی بلی بنی ہوئی تھی اچانک روتے ہوئے میری ساس کے قدموں میں گر گئی۔
’’مجھے معاف کر دیں بیگم صاحبہ! مجھے معاف کر دیں ، اگر دوبارہ مجھ سے کوئی غلطی ہو تو بے شک مجھے جان سے مار دیں‘‘ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔
’’اس پاپن کا اس گھر میں رہنا ٹھیک نہ ہے۔ یدی اسے اوسر ملا تو یہ کچھ بھی کر سکتی ہے یوں بھی اس کے پریمی بہت ہیں اس شہر میں ’’ رادھا نے مجھے سمجھایا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’دفع ہو جاؤ یہاں سے، اگر میں نے تمہیں اس گھر کے آس پاس پھٹکتے بھی دیکھ لیا تو تمہاری خیر نہیں‘‘ میں نے گوری کو بری طرح لتاڑ دیا۔ اس نے ایک نظر سب کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ سب خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ صائمہ آج بہت خوش تھی وہ بار بار میری طرف دیکھ کر مسکراتی۔
’’موہن! میں جا رہی ہوں یدی کسی کارن میری جرورت ہو تو من میں میرا دھیان کر لینا میں آجاؤں گی‘‘ رادھانے میرے کان میں کہا۔
’’دل میں تو ہر وقت تمہارا ہی خیال رہتا ہے‘‘ میں نے اسے خوش کرنے کے لئے کہا۔ اسکا احسان کچھ کم نہ تھا۔ بڑی دلآویز مسکراہٹ اس کے نازک لبوں پر آگئی۔
’’یہ بات ہے تو میں رات کو آکرتم سے ڈھیر سارا پریم کروں گی‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
’’ناعمہ تم اپنے کمرے میں جاؤ‘‘ صائمہ نے اس سے کہا۔
’’اچھا باجی‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
’’فاروق ! شرجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ صائمہ نے میری رائے جانناچاہی۔
’’جو آپ لوگ مناسب سمجھیں‘‘ میں نے مختصر ساجواب دیا۔
’’بیٹا! اگر مناسب ہو تو اسے معاف کرکے ناعمہ کو اس کے گھر بھیج دیاجائے۔ بیٹیاں اپنے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں‘‘ میری ساس کہنے لگیں۔
’’پہلے آپ ناعمہ سے پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے ؟ اگر اس کا خیال بھی یہی ہے تو ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا۔
بات ختم ہوگئی۔ رات کا کھانا کھا کر میں اور صائمہ باہر لان میں آبیٹھے۔ بچوں کو جاوید کے حوالے کرکے میں مطمئن تھا یوں بھی وہ دونوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ صائمہ نے چائے بنانے کی ذمہ داری ناعمہ کے سپرد کی اور اسے کہا چائے وہ وہیں لے آئے۔ہم دونوں لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ناعمہ چائے لے آئی وہ بالکل خاموشی تھی۔ مجھے اس پر ترس آیا کتنی شوخ ہوا کرتی، ہر وقت ہنستی رہتی۔ گیٹ پر بیل ہوئی چوکیدار نے بتایا شرجیل صاحب آئے ہیں۔ میں نے دیکھا ناعمہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آگیا۔ میں نے صائمہ کی طرف دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اسے اندر بھیج دو‘‘ میں نے چوکیدار سے کہا۔
’’میں نے کہا تھا جی، وہ کہہ رہے ہیں فاروق صاحب کو بلادو‘‘ چوکیدار نے بتایا۔
’’صائمہ! تم جا کر اسے لے آؤ‘‘ تھوڑی دیر بعد شرجیل سر جھکائے آگیا۔
’’اسلام علیکم!‘‘ اس نے آتے ہی سلام کیا۔
’’وعلیکم اسلام! آؤ شرجیل بیٹھو‘‘ میں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چپ چاپ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ شرمندگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’شرجیل! غلطی تو تم نے بہت بڑی کی ہے ۔۔۔اگر تم اپنے کیے پر نادم ہو اور ناعمہ تمہیں معا ف کرتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے ایک نظر ناعمہ کی طرف دیکھا جو چہرہ جھکائے لان کی گھاس کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے کرید رہی تھی۔
’’ناعمہ! جو غلطی میں نے کی ہے اس کے لئے اگرمیں سوبار بھی معافی مانگوں تو کم ہے ۔۔۔لیکن غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور میں بھی ایک انسان ہوں۔ اگر تم مجھے معاف کر دو تو میں وعدہ کرتاہوں ساری زندگی دوبارہ ایسی غلطی نہیں کروں گا‘‘ شرجیل نے کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کرکے ناعمہ سے معاف مانگلی۔
’’انکل اور آنٹی آجائیں پھر بیٹھ کر بات کر لیں گے‘‘ صائمہ نے شرجیل سے کہا ’’اگر وہ تمہاری ضمانت دے دیں کہ تم دوبارہ ایسی حرکت نہ کرو گے تو ہمیں ناعمہ کو بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں‘‘ صائمہ بہت دانشمند تھی۔ اس نے یہ بات محض شرجیل کو ڈرانے کے لئے کہی تھی۔ شرجیل کا رنگ اڑ گیا۔
’’باجی! خدا کے لئے مجھے مزید ذلیل نہ کریں، اگر پایا اور مما کو معلوم ہوگیا تو مجھے ہمیشہ کے لئے گھرسے نکال دیں گے۔ آپ تو جانتی ہی ہیں پایا کو وہ کس قدر سخت اور اصولوں کے پابند ہیں‘‘ شرجیل نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔ صائمہ نے میری طرف دیکھا اور میں نے ناعمہ کی طرف وہ میرا اشارہ سمجھ کر بولی۔
’’فاروق بھائی! آپ میرے بڑے ہیں جیسا آپ کا حکم ہوگا میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘
’’شرجیل اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کو تم دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرو گے‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’باجی! جس قدر شرمندگی مجھے ہو رہی ہے اگر میں اس بات پر قادرہوتا کہ اپنا دل آپ کھول دکھا سکوں تو یہ بھی کر دیتا لیکن اس وقت تو میں اتناہی کہہ سکتاہوں کہ فاروق بھائی علم والے ہیں اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میں سچ کہہ رہاہوں تو مجھے معاف کر دیا جائے‘‘ اس نے بڑی متانت سے کہا۔
’’دل تو تم اپنی ان محترمہ کو دکھاناہمیں تو تمہاری باجی کا دل سنبھالنے میں ہی خاصی مشکل پیش آتی ہے دوسرا دل کہاں سے دیکھتے پھریں‘‘ میں نے ماحول کا تناؤ ختم کرنے کے لیے کہا۔ میری بات پرصائمہ نے گھور کر مجھے دیکھا پھر ہنس پڑی۔ ماحول کچھ خوشگوا ر ہوگیا تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے صائمہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا کچھ دور جاکرمیں نے کہا’’تھوڑی دیر دونوں کو تنہا چھوڑ دو اگر ان کا آپس میں کمپرومائز ہو جاتاہے تو بہتر ہے۔‘‘
’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے فاروق!‘‘ اس نے میری تائید کی۔ تھوڑی دیر لان میں چہل قدمی کرنے کے بعدہم دوبارہ کرسیوں پر آبیٹھے۔ ناعمہ بھیگی آنکھیں لیے مسکرا رہی تھی۔
’’فاروق بھائی!آپ نے جتنا بڑا احسان کیا ہے میں چاہوں بھی تو اس کا بدلہ ساری زندگی نہیں اتار سکتا‘‘ شرجیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے کہا
’’اتار سکتے ہو اگر تم ناعمہ کوخوش رکھو تو سمجھو میرے احسان کا بدلہ اتر گیا۔مٰں ناعمہ کی آنکھوں میں آئیندہ آنسو نہیں دیکھ سکوں گا، اورہاں اس کے ساتھ ہی تمہیں جرمانہ بھی ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’جان حاضرہے خان صاحب!‘‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔
’’جان تو تم سنبھال کر رکھو اپنی ناعمہ کے لیے ہمیں تو بس آئس کریم کھلا دو‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ ناعمہ شرما کر اندر بھاگ گئی۔ بچے آئس کریم کا سن کر بھاگتے ہوئے آگئے۔ میری ساس کا بس نہ چلتا تھا کہ مجھے اپنی آنکھوں پر بٹھا لے۔ بہرحال مزید ایک دن رک کر ہم واپس آگئے۔
گھر آکر صائمہ نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
’’فاروق! ایک بات کی سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ ایک چھٹی باقی ہونے کی وجہ سے میں گھر پر تھا بچے سکول جاچکے تھے۔
’’کونسی بات؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’جب آپ اتنا کچھ جانتے تھے تو وہ منحوس پنڈت اور اس کا استاد کیسے آپ پر حاوی ہوگئے‘‘ اس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔
’’اس وقت میرے وظائف ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ میں اکثر بیمار ہو جاتا تھا۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے تھا۔ لیکن میں مجبور تھا کسی کو کچھ بھی نہ بتا سکتاتھا۔ کیونکہ میرے استاد نے مجھے سختی سے تاکید کی تھی اگرکسی کوکچھ بتاؤں گا سب کچھ ختم ہو جائے گا اور تم جانتی ہو۔ جس قسم کے حالات ہمیں اس گھر میں پیش آرہے تھے اس وجہ سے بہت ضروری تھا کہ میں کچھ علم سیکھ لوں‘‘ میں نے اسے مطمئن کرنے کے لئے فوراً کہانی گھڑ لی جس میں اب میں کافی ماہر ہوتا جا رہا تھا۔
’’لیکن رادھا نے جب ہمیں تکلیف دینا شروع کی تھی اس وقت بھی آپ نے کچھ نہ کیا‘‘ وہ کسی طور مطمئن ہونے میں نہ آرہی تھی۔ میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ صائمہ حد درجہ ذہین ہے۔
’’کہا توہے اس وقت میرا وظیفہ مکمل نہیں ہوا تھا اسی وجہ سے وہ ہمیں ستانے کے قابل ہوئے۔ اب دیکھو اس کے بعد توکچھ بھی نہیں ہوانا‘‘ میں نے دلیل دی۔
اس کے بعد صائمہ نے اس بارے میں کوئی سوال نہ کیاتھا۔ میں حسب معمول بینک جانے لگا۔ ایک ہفتے تک کوئی خاص بات نہ ہوئی صائمہ نے بتایا کہ ناعمہ کا فون آیا تھا۔ وہ شرجیل کے ساتھ بہت خوش ہے۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں