جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔۔۔ قسط نمبر31

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔۔۔ قسط نمبر31
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔۔۔ قسط نمبر31

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اچانک مجھے اپنے جسم میں ایک انوکھی طاقت کا احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس تشدد کے باعث آئے زخم میرے جسم سے یوں ختم ہوگئے جیسے کبھی لگے ہی نہ تھے۔
”ایک جگہ جم کر کھڑے رہنا پرتیم!“ رادھا نے مجھے بڑے پیار سے ہدایت کی۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ رادھا نے اپنی جھیل سی آنکھیں بند کرلیں۔ اچانک اس کے منہ سے عجیب آواز نکلی۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور لا تعداد بلیاں کمرے میں گھس آئیں۔ ہر طرف بلیاں ہی بلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ سب رادھا کے اشارے کی منتظر اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
”کالی داس! اب بھی سمے ہے اپنا جاب بند کرکے یہاں سے چلا جا نہیں تو بھوانی کی سوگند ایک پل میں تیرا یہ شریر میری سکھیوں کا بھوجن بن جائے گا “ رادھا کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔
کالی داس نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شیطانی قوتوں کا رقص جاری تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لکیر گہری ہوگئی۔ ایک نظر بلیوں کی طرف دیکھ کر وہ بولا۔
”تو اس سمے امر کمار کے گرو کے سامنے کھڑی ہے مورکھ! تو نے کالی داس کی شکتی کا گلط و چار کیا۔ تیری سکھیاں تو کیول تیر امن پرسن کرنے آگئی ہیں۔ یہ جانتی ہیں کہ کالی داس کس شکتی کا نام ہے؟ ان سے کہہ یہ اپنا کریہ آرمبھ (کام شروع) کریں “ کالی داس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
رادھا نے بلیوں کو اشارہ کیا میرا خیال تھا بلیاں اس منحوس کے بدن کو نوچ کر کھا جائیں گی۔ لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی بلیاں اپنی جگہ یوں ساکت تھیں جیسے زندہ نہیں پتھر کی ہوں۔ اچانک رادھا کی آنکھوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے ایک نظر کالی داس پر ڈال کر اپنا خوبصورت ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور بلیوں کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اس کا حسین چہرہ غیض و غضب کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ اس عالم میں بھی وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ اچانک بلیوں کی جسم میں حرکت ہوئی اور سب کی سب کالی داس پر جھپٹیں۔کمرے میں کالی داس کی دھاڑ گونجی۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔۔۔ قسط نمبر30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”جے کالی ماتا....!“ یہ کہہ کر وہ اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا۔ بلیاں اس کے چاروں طرف پھیل چکی تھیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی لیکن جیسے کسی نادید دیوار نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ کالی داس اطمینان سے انہیں دیکھنے لگا۔
”یدی تو اب بھی مجھ سے شما مانگ لے اور مجھے وچن دے کر تو پھر کبھی اس ملیچھ مسلے سنگ سمبندھ نہ رکھے گی تو میں تجھے شما کو کر سکتا ہوں سمے بیت گیا تو پھر تو دیا کی بھکشا مانگے گی تو نہ ملے گی“ کالی داس نے میری طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے بڑے غرور سے رادھا کو مخاطب کیا۔ رادھا کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔
”مورکھ! مجھے کیول دیوتاﺅں کادھیان ہے نہیں تو اک پل میں میں تجھے نرکھ میں بھیج سیکتی ہوں۔ میری سگھیاں بھی اسی کارن تجھے اور سردے رہی تھیں۔ سمے ابھی گیا نہیں کالی داس ! یدی تو میرے پریتم سے شما مانگ لے اور یہ وچن بھی دے کر پھر کبھی تو ہمرے بیچ نہ آئے گا تو مجھے وشواش ہے میرا ساجن تجھ پر دیا کھا کر تجھے جیون بھکشا دان کر دے گا“ رادھا نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”تو اس پلید کے کارن کالی داس کے آڑے آئے گی۔ تو مجھے اس ملیچھ مسلے سے شما مانگنے کو کہہ رہی ہے“ کالی داس غضبناک ہوگیا۔ اس کے منہ سے کف اڑنے لگا۔
”بھگوان جانتاہے میں نے تجھے سمجھانے میں کوئی کمی نہ کی کالی داس! پونتو تو مورکھ ہے تیرے سر میں بدھی نہیں ماٹی بھری ہے۔ اب دیکھ میری سکتی تو نہیں جانتا رادھا کس شے کا نام ہے “ رادھا کا لہجہ برف سے زیادہ سر تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں میں آگ کے الاﺅ بھڑک اٹھے۔ اس نے اپنے حسین جسم کو ایک بل دیا دونوں ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کرلیں۔ چاروں طرف تیز سرخ روشنی پھیل گئی۔ کمرہ دہکتے تنور کا منظر پیش کرنے لگا۔ چھت سے آگ کا ایک گولا سیدھا اس جگہ گرا جہاں کالی داس کھڑا تھا۔ اچانک کالی داس جست لگا کر ایک طرف ہٹ گیا۔ بلیاں یک دم غائب ہوگئیں۔ آگ کے گولے نے ایک بار پھر کالی داس پر حملہ کیا۔ اس بار بھی کالی داس اچھل کر اس کے زد میں آنے سے بچ گیا۔ گولا بار بار اس پر حملہ کرتا اور کالی داس چھلانگ لگا کر اس سے بچ جاتا۔ اس نے کئی بار کوشش کی کہ وہ ایک جگہ ٹک کر کوئی جاپ کر سکے لیکن گولے نے اسے موقع نہ دیا۔ وہ بھاگتے ہوئے کچھ پڑھ رہا تھا اس کے موٹے موٹے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ آگ کا دہکتا ہوا گولا کالی داس کے پیچھے تھا اور وہ اس سے بچنے کے لیے کمرے میں چاروں طرف دوڑ رہا تھا۔ گولے نے اس ایک جگہ ٹکنے نہ دیا۔ اس کی حالت مضحکہ خیز ہو چکی تھی۔ وہ اپنے سب جنتر منتر بھول کر جان بچانے میں لگا ہوا تھا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ رادھا کے نقرئی قہقہے سے کمرے میں جلترنگ سا بج اٹھا۔ اس کا حسین چہرہ جوش سے سرخ ہو کر قیامت ڈھانے لگا۔ بھاگتے بھاگتے جب کالی داس میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اس کے آگ پاﺅں اڑا دیا۔ وہ اپنے زور میں دھڑام سے زمین پر جا پڑا۔ آگ کا گولہ اس پر جھپٹا قریب تھا کہ وہ اسے جلا کر راکھ کر دیتا کالی داس خوف سے چلایا۔
”بھگوان کے نام پر مجھے شما کر دے رادھا! میں وچن دیتا ہوں پھر کبھی تیری راہ میں نہ آﺅں گا۔ دیوی! مجھ ابھاگی (بدنصیب) پر دیا (رحم) کر“ اس کا زرد رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ وہ قریب آتے گولے کو یوں دیکھ رہا جیسے موت کو دیکھ رہا۔ آنکھیں خوف سے پھٹی ہوئی تھیں۔ رادھا نے اپنے نازک ترین ہاتھ کا رخ گولے کی طرف کر دیا۔ وہ شاید گولے کو اس پر گرانا چاہتی تھی۔
”رادھا! اس حرامزدے کو نہ مارنا۔“ میں اضطراری طور پر چلایا ”اگر یہ مر گیا تو میری معصوم بیٹی کون واپس لائے گا؟“ رادھا جو اپنا ہاتھ جھٹکنے والی تھی میری بات سن کر رک گئی۔ اس کا غضبناک چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگا۔
”کالی داس! میرے موہن کے کارن آج تو بچ گیا۔ اس کی پتری کو ابھی اسی سمے چھوڑ دے“ رادھا نے اسے حکم دیا۔
”دیوی! میں تیری ہر آگیا کا پالن کروں گا کیول ایک بار مجھے شما کر دے میں وچن دیتاہوں پھر کبھی تیرے پریمی کو کچھ نہ کہوں گا۔“ وہ منتوں پر اتر آیا۔ اس کا غرور تکبر سب خاک میں مل گیا تھا۔ مجھے ایک گونا فخر محسوس ہوا۔ رادھا نازک ہونٹوں پر ایک ملکوتی مسکراہٹ لیے مجھے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے کالی داس کو حکم دیا۔
”اپنے بیروں کو آگیا دے وہ اسی سمے موہن کی پتری کو اس کے گھر پہنچ دیں۔ یدی تو نے دیری کی تو پھر تو کھوب جانتا کہ میں....“ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ آگ کا گولہ ابھی تک کالی داس کے سر پر معلق تھا۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے گولے کو دیکھا پھر بڑی لجاجت سے بولا۔
”دیوی جی! اپنے سیوک سے کہہ میرے بیروں کو اندر آنے کی آگیا دے تاکہ میں ان سے کہہ سکوں“ اس کی قابل رحم حالت دیکھ کر رادھا کے منہ سے مدھر ہنسی نکل گئی۔ اس نے گولے کی طرف دیکھا وہ گھومتا ہوا چھت کے پاس جا کر ٹھہر گیا کالی داس اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہونٹ ایک بار پھر ہلنے لگے۔ رادھا چوکنے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کوئی بعید نہ تھا وہ خبیث پھر کوئی حرکت کر بیٹھتا۔ رادھا نے گولے کی طرف دیکھ کراجنبی زبان میں کچھ کہا۔ وہ گھومتا ہوا دروازے کے پاس جا کر ہوا میں ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر بعد کالی داس نے آنکھیں کھول دیں۔
”دیوی جی! تیری آگیا کا پالن ہوگیا ہے اب مجھے جانے دے“ رادھا نے میری طرف دیکھا اس کی نظریں مجھ سے وال کر رہی تھیں، کالی داس ہاتھ جوڑے رادھا کے حکم کا منتظر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔
”تو میرے پریتم موہن کا اپرادھی ہے....یدی وہ تجھ پر دیا کرے تو تجھے جیون بھکشا مل سکتی ہے“ ایک میٹھی نظر مجھ پر ڈال کر وہ بولی ”پریتم! میرا یہ سیوک اس سمے تمری ہر آگیا کا پالن کرے گا “ رادھا کا اشکارہ گولے کی طرف تھا ”یدی تم آگیا دو تو یہ ایک پل میں اس دھشٹ کر جلا کر بھسم کر دے“ پراسرار طاقتوں کی مالک رادھا میرے حکم کی منتظر تھی۔ خوشی سے میرا دل سرشارہوگیا۔
”جو کچھ اس ملعون نے میرے ساتھ کیا ہے اگر میں اسے بھول بھی جاﺅں تب بھی یہ موت کی سزا کا مستحق ہے اگر اس کا جھگڑا میرا ساتھ تھا بھی تو میری معصوم بیٹی کا اس میں کوئی قصور نہ تھا۔ اس بدبخت نے جو حرکت اس ننھی سی جان کے ساتھ کی ہے کیا یہ اس کے بعد کسی معافی یا رحم کا مستحق ہے؟“ میں نے نفرت سے کالی داس کو گھورتے ہوئے سوال کیا۔
”میں تجھ سے بھی شما مانگتا ہوں، مجھ پر دیا کر....میں وچن دیتا ہوں کبھی تجھے کچھ نہ کہوں گا۔“ وہ گھگیانے لگا۔ نہجانے مجھے کیوں اس پر ترس آگیا۔
”ٹھیک ہے رادھا! اس کو اس بار معاف کر دو، اگر آئندہ اس نے ایسی حرکت کی تو اسے ضرور سزا ملنی چاہئے۔“ اس وقت تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن اسے معاف کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو کچھ اس کمینے نے بعد میں میرے ساتھ کیا۔ اس شیطان صفت مردود کی وجہ سے میں کن مشکلات و مصائب میں گرفتار ہوا؟ یہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہوگا۔
”کالی داس! تجھے یہ بھکشا میرے پریمی کے کارن ملی ہے یاد رکھنا یدی تو نے پھر کبھی ہم دونوں کے بیچ آنے کی اوشکتا کی یا میرے موہن کی اور بری نجر سے دیکھا تو اس دھرتی پر تجھے میرے شراپ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ تو جانتا ہے رادھا جو کہے وہ اوش پورا کرتی ہے ....جاچلا جا کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے وچن سے پھر جاﺅں۔“ رادھا نے بڑی حقارت سے کہا۔
”دیوی جی! تیرا اور تیرے پریمی کا یہ اپکار میں جیون بھر نہ بھول پاﺅں گا۔ دھن باد دیوی جی....دھن باد“وہ رادھا کے آگے جھک گیا۔ اس کے بعد رادھا نے آگ کے گولے کو جو ابھی تک دروازے کے پاس ہوا میں معلق تھا اشارہ کیا وہ آنا فانا غائب ہوگیا۔ اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا بند دروازہ خود بخود کھل گیا۔ کالی داس یوں بھاگا جیسے جہنم کی بلائیں اس کے پیچھے ہوں۔ اس کے جانے کے بعد رادھا نے اپنایت بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔ اس کی حسین آنکھوں میں شکوہ تھا۔ میں نے اس پر شک کیا تھا جس کی وجہ سے میں اس سے شرمندہ تھا۔ دوسری بار اس نے مشکل سے بچایا تھا مومنہ کو اس مکروہ پنڈت سے چھڑانا اس کا سب سے بڑا احسان تھا میری آنکھوں میں شرمندگی کے تاثرات دیکھ کر وہ بولی۔
”مجھ پاپن کو ایسے نہ دیکھو موہن! تم نے اپنے من میں جو وچارکیا اس میں تمرا کوئی دوش نہیں جو کچھ آج سویرے میں نے تمری پتنی سنگ کیا تھا اس کے بعد تمرا یہ وچارکرنا کہ میں تمری بالیکا کو کشٹ دے سکتی ہوں کوئی ایسا برا بھی نہ تھا۔“ میں اس کی اعلیٰ ظرفی کا معترف ہوگیا۔
”نہیں رادھا! کچھ بھی ہو میں تم سے شرمندہ ہوں کہ میں نے تمہارے بارے میں ایسا سوچا۔“ میں نے بڑی سچائی سے اسے اپنی دلی کیفیت سے آگاہ کیا۔ اس نے کچھ نہ کہا مسکرا کر میرا ہاتھ دبادیا۔ اس کی ہر ادا میں میرے لیے محبت تھی۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی۔ معلوم تھا صائمہ شدت سے میرا انتظار کررہی ہوگی۔
”جانتی ہوں موہن ! تم اس سمے کس کارن بیاکل ہو۔ میں جیادہ سمے تمہیں یہان نہیں روکوں گی۔ پرنتو تھوڑا کشٹ تو اس پاپی کو بھی بھوگنا چاہئے جس نے کالی داس کے کہے پر میرے پریتم سنگ انیائے کیا ہے۔“
اس کے لہجے میں میرے لیے پیار ہی پیار تھا۔ جھیل سی گہری آنکھوں میں خمار چھایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بالکل اس انداز سے تالی بجائی جیسے پہلے زمانے میں شہزادیاں اپنی کسی کنیزکو طلب کرنے کے لیے بچایا کرتی تھیں۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دروازے سے وہی شیطان صورت تھانیدار داخل ہوا جو مجھے گرفتار کرکے تھانے لایا تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اس کا انداز اس شخص جیسا تھا جسے مسمرائز کر دیا گیا ہو۔ وہایک طرف کھڑا خالی خالی نظروں سے دیوار کو تک رہا تھا۔ میں نے حیرت سے رادھا کی طرف دیکھا جو بڑی دلچسپی سے تھانیدار کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اس کے کومل ہونٹوں نے حرکت کی وہ زیر لب کچھ پڑھنے لگی۔ اچانک تھانیدار چونک گیا اور حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں غصے کی کیفیت ابھری پھر جیسے ہی اس کی نظر رادھا پر پڑی وہ نظریں ہٹانا بھول گیا۔ اس کے ہونٹ سیٹی بجانے کے انداز میں سکڑ گئے۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے وہ بڑے اسٹائل سے رادھا کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی۔ مجھے نظر انداز کرتا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس کے بالکل قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔ مکروہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوگئی۔
”کون ہو تم ،یہاں کیسے آئی ہو؟“ ویسے ہو بڑی جاندار چیز....مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں میرے علاقے میں اس قدر حسین لڑکی رہتی ہے۔ تمہیں تو میرے گھر پر ہونا چاہئے“ اس نے کھل کر اپنے مکروہ ارادے کا اظہار کیا۔ تھانے کو وہ چونکہ اپنی ملکیت سمجھتا تھا اسلئے بڑی دیدہ دلیری سے بکواس کیے جا رہا تھا۔
”پرنام صاحب....!“ رادھا نے کسی کنیز کی طرح دونوں ہاتھ جوڑ کر اسے ہندوانہ انداز میں سلام کیا۔
”تمہاری آوازتو تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے“ اس کے منہ سے جیسے رال بہنے لگی۔
”مہاراج! کیا میں پوچھ سکتی ہوں اس منش کو کس کارن بندی بنایا گیا ہے؟“ رادھا نے بڑی لجاجت سے پوچھا۔ تھانیدار اس کی بات تو نہ سمجھا ہاں اتنا جان گیا کہ وہ میرے بارے میں بات کر رہی ہے۔
”اچھا تو تم اس کے پیچھے آئی ہو۔ لیکن یہ تو مسلمان ہے جبکہ تم ہندو دکھائی دیتی ہو“ تھانے دار نے اس کے ماتھے پر لگے تلک اور حسین سراپے کو پر ہوس نظروں سے دیکھا۔ مجھے ہنسی آرہی تھی میں جانتا تھا رادھا اسکا کیا حشر کرنے والی ہے۔“ اس حرامزادے نے تمہارے مذہب کی ایک لڑکی کی عزت خراب کرکے اس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ لیکن تمہارا یہ کیا لگتا ہے؟“ تھانے دار نے جواب دے کر سوال کیا۔
”یہ سب تمہیں کس نے بتایا مہاراج؟“ رادھا نے اس کا سوال یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بڑی ملائمت سے پوچھا۔ تھانے دار کے تیور بدل گئے۔
”تم اس بات کو چھوڑو، اسے تو میں اب پھانسی پر چڑھوا کر ہی دم لوں گا۔ تم ایسا کرو میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو تمہارے جیسی حسین لڑکی کی جگہ یہ نہیں میرا دل ہے“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ رادھا کی طرف بڑھایا۔ میرا خیال تھا ابھی رادھا اسکی جسارت کا جواب دے گی لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا بلکہ مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مہاراج! میں نے ایک پرشن پوچھا تھا“ تھانے دار کی سمجھ میں شاید اس کی بات نہ آئی کیونکہ رادھا زیادہ تر ہندی کے الفاظ بولتی تھی۔ میں بھی اس کی بات اس لئے سمجھ لیتا تھا مجھے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہے میں ہندی بول تو نہیں سکتاہاں بخوبی سمجھ لیتا ہوں۔
”میں پوچھ رہی ہوں اس کو کیوں قید کیا گیا ہے؟“ اس بار رادھا نے کسی قدر آسان انداز میں اپنے سوال کو دہرایا۔
”تمہیں اس سے کیا لگاﺅ ہے؟“ اس بار تھانے دار نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”مجھے تو معلوم پڑا تھا کسی نے تمہیں ایک لاکھ روپے دیئے ہیں اسے بندی بنانے کے کارن“ اس بار رادھا کا لہجہ سرد تھا۔ ایک بار پھر وہ تھانے دار کا سوال گول کر گئی تھی۔
”ارے چھوڑو اس حرامی کو....کیوں اتنی خوبصورت رات برباد کر رہی ہو؟ آﺅ میرے ساتھ میں تمہیں ایک نئے جہاں کی سیر کرواﺅں گا“ تھانے دارنے جواب دینے کے بجائے اسے اپنی طرف کھینچا۔
رادھا نے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ مضبوطبی سے پکڑ لیا۔ اچانک اس کا خوبصورت مومی ہاتھ سرخ ہونے لگا۔ تھانے دار کے منہ سے فلک شگاف چیخ نکلی۔ رادھا کا سفید مومی ہاتھ جلتے ہوئے انگارے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ تھانے دار اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے لیے یہ ممکن نہ رہا تھا۔ کمرے میں گوشت جلنے کی چراند پھیل گئی۔ وہ کسی ذبح ہوتے بکرے کی طرح ڈکرانے لگا۔ وہ بار بار ہاتھ کو کو جھٹکے دے کر چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کرب و اذیت سے اس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ آہستہ آہستہ آگ نے اس کا ہاتھ جلانا شروع کر دیا۔ آگ تیزی سے اس کے ہاتھ کو جلا کر آگے بڑھ رہی تھی۔ رادھا نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب تھانے دار پاگل کتے کی طرح کمرے میں دوڑ رہا تھا۔ وہ بار بار ہاتھ جھٹک کر آگ بجھانے کی کوشش کرتا۔ کچھ ہی دیر میں آگ نے اس کے سارے جسم کو گھیر لیا تھا وہ زمین پر گر کر لوٹنیاں لگانے لگا۔ بالآخر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ فلک شگاف چیخیں کراہوں میں تبدیل ہوگئیں۔ یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہوگیا تھا۔ رادھا اطمینان سے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کاہاتھ دوبارہ اپنی اصل شکل میں آگیا تھا۔ گوشت جلنے کی چراند سے سانس لینا دوبھر تھا میں نے اپنی ناک چٹکی میں دبالی۔ رادھا نے میری طرف دیکھا اور میرے قریب آکر پیار سے میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے ہٹا دیا۔ اب بدبو کا نام و شنان نہ تھا بلکہ کمرے میں گلاب کی مسحور کن مہک پھیلی ہوئی تھی ۔ مجھے یاد آیا پہلی بار تھانے دار اور اس کے چیلوں کی موت جلنے سے ہوئی تھی اور کمرہ ان کے گندے گوشت کے جلنے کی بدبو سے بھر گیا تھا تو اچانک میرے نتھنوں سے گلاب کی خوشگوار مہک کا جھونکا ٹکرایا تھا پھر میں ہوش و حواس کی دنیا سے دور چلا گیا تھا۔ اس وقت میں شدید حیرت سے دوچار تھا کہ کس نادیدہ محسن نے مجھے ان درندوں کے چنگل سے رہائی دلوائی ہے؟ لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ وہ پیکر رعنائی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے قریب موجود تھی۔ تھانے دار کا جلا ہوا ڈھانچہ عبرت کا نشان بنا زمین پر پڑا تھا۔ اباس میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کی بدروح جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ جب وہ چیخ رہا تھا تو میں ڈر گیا کہ تھانے کا عملہ اس کی چیخیں سن کر آجائے گا لیکن انسان تو کیا کسی کی آواز بھی سنائی نہ دی تھی۔ یہ بھی شاید رادھا کے کی قوت کا کرشمہ تھا۔ پوری عمارت پر خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے یہاں ہمارے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ ہو۔
رادھا نے بغیر کچھ کہے میرا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ گلاب کی خوشبو برابر میرے آس پاس موجود تھی۔ باہر آکر میں اس نے اطمینان بھرا سانس لیا۔ سامنے ہی میری گاڑی کھڑی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ رادھا نے کالی داس سے کہا تھا۔
”اک پل میں تیرا یہ شریر میری سکھیوں کا بھوجن بن جائے گا“ جس کا مطلب تھا رادھاکی سہلیاں جو بلیوں کی روپ میں تھیں انسانی گوشت ان کی غذا تھی۔ سادھو امر کمار کا گوشت بھی وہ ایک پل میں چٹ کر گئی تھیں۔ ہونا تو یہ چائے تھا کہ رادھا بلیوں کو بلاتی اور انہیں تھانے دارگوشت کھانے کی اجازت دیتی بلکہ تھانے دار کے گوشت سے ان کی دعوت کرتی لیکن اس کی بجائے اس نے تھانے دارکو راکھ کر دیا تھا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی تھی۔
”کس وچار میں گم ہے میرا پریمی!؟“ اس نے پیار سے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے بتا دیا میں کیا سوچ رہاہوں؟“
تمرا وچارٹھیک ہے پرنتو میں اس طرح تمرے واسطے کٹھنائیاں بڑھ سکتی ہیں“ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
”لیکن جب تھانے دار کا جلا ہوا جسم ملے گا تو پھر بھی میری لئے مشکل پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ بھرے بازار سے یہ مجھے گرفتار کرکے لایا تھا“ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔ بڑی دلآویز مسکراہٹ اس کے نرم لبوں پرپھیل گئی۔
”چمپا تو یاد ہوگی تمہیں؟ وہ سندرنا جو تمہیں بہلا کر مادھو پور لے گئی تھی۔“
میرا دوران خون تیز ہوگیا۔ مجھے وہ رات یاد آگئی جو میں تھانے میں گزاری تھی۔
”میں اس حرامزادی کو کیسے بھول سکتا ہوں“ میں نے تیز لہجے میں کہا۔
”کل اس کوٹھے کی دشا(کمرے کی حالت) یہ نہ ہوگی پرتیم!“ اس نے اسی کمرے کی طرف اشارہ کیا جس میں تھانے ارکا جلا ہوا ڈھانچہ پڑا تھا۔“ یہ راکھ کا ڈھیر ہوگا جس میں سے اگنی سے بھسم دو شریر ملیں گے۔ ایک اس حرام کے جنے تھانے دار کا دوجا ایک کومل نارکا....جس کا سبھ نام چمپا تھا۔ دونوں سنسار سے چھپا کر یہاں ملن کر رہے تھے کہ کسی کارن کوٹھا بھسم ہوگیا۔“ میں اس کی ذہانت کا قائل ہوگیا۔
”تم تو بلا کی ذہین ہو“ میں نے تعریفی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
”جب کسی سے پریم ہو جائے تو اس کی رکھشا کرنے کے کارن ایسا پربند کرنا پڑتا ہے۔“ حسین آنکھوں میں خمار چھا گیا۔
”رادھا! جو احسان تم نے مجھ پر کیا ہے شکریہ اس کے لئے بہت چھوٹا لفظ ہے پھر بھی میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر تم میری مدد نہ کرتیں تو نہ جانے یہ لعنتی کالی داس میری معصوم بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ اور یہ راشی تھانے دار تو مجھے پوری طرح پھنسانے پر تلا ہوا تھا اس مشکل گھڑی....“ اس نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا۔
”پرتیم! تمری یہ باتیں سمجھے دکھی کر رہی ہیں تمرا مجھ ابھاگن کتنا ادھیکار ہے تم نہیں جانتے۔ میں نے جو کیا وہ تو کچھ بھی نہیں یدی کبھی ایسا اوسر آیا جس میں رادھا کو جیون دان کرنا پڑے تو رادھا اس سے بھی منہ نہ موڑے گی“ اس نے بڑے جذب کے عالم میں کہا۔ اس کے لہجے میں سچائی کا انداز ہو رہا تھا۔ حسین آنکھیں میری جانب اٹھ گئیں۔ لانبی خمدار پلکوں پر موتی لرز رہے تھے۔ جب وہ بولی تو اس کے لہجے سے حسرت ٹپک رہی تھی۔
”تم سے دورہونے کو من تو نہیں کرتا پرنتو....جانتی ہوں تو اپنے گھر جانے کے کارن بیاکل(بے چین) ہو رہے ہو“ ہم چلتے ہوئے گاڑی کے قریب پہنچے تو وہ بالکل میرے قریب آگئی۔ اسکی معطر سانسیں میرے چہرے کو چھو رہی تھی۔ اس مہک کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ مسحور کن مہک میرے حواسوں پر چھا گئی۔ اس کا قرب مجھے مدہوش کر رہا تھا۔
”پریم! میں نے ایک بنتی کی تھی اور تم نے مجھے وچن دیا تھا کہ تم اسے سوپکار کرو گے۔ پرنتو تم نے وہ گھر ہی چھوڑ دیا۔ جہاں میں رہتی ہوں۔ تمرے بن اس میں اب میرا من نہیں لگتا۔ میں بنتی کرتی ہوں پرتیم! واپس آجاﺅ۔“ حسین جھلیںپانیوں سے بھرنے لگیں۔
”لل....لیکن“ میں نے کہنا چاہا تو اسنے ایک بار پھر اپنے کومل ہاتھ میرے ہونٹ بند کر دیے۔
”کچھ نہ کہو میرے میت! میں جانتی ہوں تمرے من میں کا وچارہے؟ کیول اتنا یاد رکھو رادھا تم بن رہ نہیں پائے گی“
رات کی تاریکی اور تھانے کی حدودمیں بڑے اطمینان سے اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی۔ مجھے رادھا کی طاقت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اس نے جس طرح کالی داس کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا اور جو حشر اس نے تھانے دارکا کیا تھا اسے دیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔
”تمرے وچار ٹھیک ہیں سجنا....! کالی داس کوئی معمولی منش نہیں۔ اس نے سارا جیون کالی ماتاکی بھگتی میں بتایا ہے۔ وہ مہان شکتیوں کا مالک ہے۔ پرنتو اسنے تمہیں بیاکل کرکے گھور پاپ کیا تھا۔ یدی تم اسے شما نہ کرتے تو میں اس پاپی کو اس کے چیلے کے پاس بھیج دیتی۔ میں تمرے کارن سب سے یدھ کر سکتی ہوں پرنتو ایک پل کی دوری بھی مجھ ابھاگن سے سہن(برداشت) نہیں ہوتی۔ میرے اندر تم سے دور رہنے کی شکتی نہیں۔ تمرے بن تمری یہ داسی مٹی کی مورت ہے۔ کیول ایک شریر ہے میری آتما تو تم ہو“ وہ اپنی محبت کا رس دھیرے دھیرے میرے کانوں میں گھولتی رہی۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی لیکن نہ جانے اس کی قربت میں ایسی کیا بات تھی۔ میں سب کچھ بھول کر اس کے پاس کھڑا اسکی پیار بھری باتیں سن رہا تھا۔

جاری ہے, اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مزید :

رادھا -