جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر16
میں نے غور سے دیکھا اس کے دانت بھی عام بلیوں سے زیادہ لمبے اور نوکدار تھے۔ اس نے بڑے زور سے اپنا پنجہ شیشے پر مارا۔ مجھے ہنسی آگئی۔
’’تم سے سخت ناراض ہے۔‘‘
’’کیوں میں نے اس کا کیا بگاڑا ہے جو یہ مجھ سے ناراض ہے۔‘‘ صائمہ نے خفگی سے کہا۔
’’یہ تو تم دونوں ہی بہتر جانتی ہو کیونکہ تم بھی فی میل ہو اور یہ بھی‘‘ میں نے اسے چھیڑا۔ میری بات پر وہ مسکرا دی۔ دوسرے دن میں بچوں کو سکول چھوڑ کر بینک جا رہا تھا چانک پچھلی سیٹ سے کھڑپھڑکی آواز سنائی دی میں نے بیک مرر میں دیکھا تو دنگ رہ گیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
رات والی بلی بڑے مزے سے پچھلی سیٹ پر کھڑی تھی جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی وہ کود کر اگلی سیٹ پر آئی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی۔ مجھے کچھ الجھن تو محسوس ہوئی لیکن میں نے اسے کچھ نہ کہا اور گاڑی چلاتا رہا۔ راستے میں ایک سڑک ایسی بھی آیا کرتی جس کے کنارے آبادی کی بجائے کھیت تھے۔ میں اسی سڑک پر جا رہا تھا کہ اچانک ایک موڑ مڑاتو بری طرح چونک گیا۔
سڑک کے بیچوں بیچ وہی منحوس سادھو کھڑا تھا۔۔۔سادھو امر کمار۔۔۔میں نے بریک پر پاؤں رکھا گاڑی بڑی مشکل سے اس سے چند گز کے فاصلے پر رک گئی۔ اگر میں بروقت بریک نہ لگاتا تو شاید وہ گاڑی کے نیچے آکر کچلا جاتا۔ اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔ لمبی سی مالا کے دانوں پر انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ مجھے شدید غصہ آیا ابھی میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ بلی اچانک اچھل کر میرے پاؤں سے نکلی اور ساتھ والی سیٹ پر کھڑی ہوگئی۔ اس کے جسم کے سارے بال کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ یک ٹک سادھو کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر جیسے ہی بلی پر پڑی وہ بری طرح چونک اٹھا۔ مالا کے دانوں پر حرکت کرتی اس کی انگلیاں رک گئیں۔ ساتھ ہی بھدے ہونٹ بھی ساکت ہوگئے۔ وہ تیر کی طرح گاڑی کی طرف آیا اور دوسری طرف آکر شیشے کے ساتھ یوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا جیسے ہندو لوگ عبادت کے وقت بتوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
’’دھن بھاگ(خوش قسمتی) ہمرے دیوی جی! آج تمارے درشن ہوگئے‘‘ اس کے ہونٹوں سے الفاظ نکلے۔ گاڑی کے شیشے بند ہونے کے باوجود اس کی آواز مجھے صاف سنائی دی وہ بلی سے مخاطب تھا۔ بلی ہلکے سے غرائی اس کے بڑے بڑے نوکیلے دانت خوفناک لگنے لگے۔ یکدم وہ خونخوار دکھائی دینے لگی۔ سادھو نے انگلی سے اشارہ کیا۔ حیرت انگیز طور پر گاڑی کا شیشہ یوں نیچے کھسک گیا جیسے الیکٹراک سسٹم والی گاڑی کا شیشہ بٹن دبانے پر نیچے ہو جاتا ہے۔ یہ سادھو کا دوسرا کرشمہ تھا جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے جب میں نے غصے میں آکر پتھر کی وزنی ایش ٹرے اس کے سر پر مارنے کے لیے پھینکی تھی تو وہ اس کے گنجے سر سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی تھی۔ آج اس نے صرف انگلی کے ایک اشارے سے شیشے کو نیچے کر لیا تھا۔ سادھو اور بلی ہر طرف سے بے نیاز ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سادھو کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسے اسے اس کی من پسند چیز دیکھنے کو مل گئی ہو۔ اس کے برعکس بلی کی آنکھوں سے قہر برس رہا تھا۔ اس قسم کی بلی میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی جو بالکل انسانوں کی طرح اپنے جذبات کے اظہار پرقادر تھی۔
گاڑی سڑک کے بیچ میں رکی ہوئی تھی۔ اس سڑک پر ٹریفک کا رش نسبتاً کم ہوتا تھا لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ یہ بالکل ویران رہتی ہو۔ ہمیں اس حالت میں رکے ہوئے تقریبا پانچ منٹ ہوگئے تھے لیکن اس طرف کوئی گاڑی تو کیا پیدل انسان بھی نہ آیا تھا۔ہر طرف سکوت مرگ طاری تھا۔ اچانک بلی غرائی اور اس نے اپنا منہ شیشے سے باہر نکال کر سادھو کے چہرے کے قریب کر لیا۔ سادھو نے اس کی غراہٹ کوبغور سنا اور کہنے لگا۔
’’بہت تھوڑا سمے رہ گیا ہے دیوی جی! پھر تمہیں کالی ماتا کے اس سیوک کی داسی بننا ہی پڑے گا۔ جانے کب سے میں تیری راہ تک رہا ہوں؟ ورشوں میں نے تجھے پراپت(حاصل) کرنے کے کارن جاپ کیے ہیں۔ کتنے سادھو، سنت تیرے کارن جوگ لئے بیٹھے ہیں؟ پرنتو۔۔۔کالی ماتا نے مجھے وچن دیا ہے تو کیول سادھو امر کمار کی ہے۔ دیوی! کیوں اپنے اس داس کو اتنا تڑپا رہی ہے تیرا میرا تو جنم جنم سنگ رہنا بھاگیہ میں لکھا ہے۔‘‘ بلی ایک بار پھر غرائی۔
’’چلا جاؤں؟ تیرے ایک درشن کے کارن نہ جانے کتنی بار میں نے اس مسلے سے اپنا اپمان (بے عزتی) کرایا ہے۔ تھوڑا سمے رہ گیا ہے پھر تو میرے چرنوں میں ہوگی اور پورے سنسار میں سادھو امر کمار جیسا بلوان کوئی نہ ہوگا۔ ماتا نے مجھے وچن دیا ہے کہ وہ جلد ہی تجھے میری جھولی میں ڈال دے گی‘‘ سادھو بلی کی غراہٹ کے جواب میں بولا۔ وہ بلی سے یوں مخاطب تھا جیسے کسی انسان سے ہم کلام ہو۔ میں ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔ اب بلی غرانے لگی تھ۔ سادھو غور سے سن رہا تھا اس کے ہونٹوں پر بڑی ہی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں