جب اللہ کا گھر زمین پر بنایا گیا،بیت اللہ کی تعمیر کے حوالہ سے ایسی باتیں جوآپ کا ایمان تازہ کردیں
کرہ ارض پر عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ کعبة اللہ ہے ، اللہ کا گھر زمین پر کب اور کیسے تعمیر کیا گیا ،تاریخ میں اسکی مختلف روایات ہیں۔
حضرت آدمؑ کی زمین پر آمد کے بعد فرشتوں نے بیت المعمور کے عین نیچے خانہ ¿ خدا کی بنیاد رکھی۔ امام نوویؒ نے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ خانہ کعبہ پہلا گھر ہے جسے حضرت آدم ؑ نے زمین میں تعمیر کیا۔ اسی طرح امام بیہقی ؒنے دلائل النبوہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً اس روایت کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کے پاس جبرئیل امین ؑ کو بھیج کر کعبة اللہ کی تعمیر اور پھر اس کے طواف کا حکم دیا۔ حضرت آدمؑ نے اس حکم کی تعمیل کرلی تو ان سے کہا گیا کہ”آپ پہلے آدمی ہیں اور یہ بیت اللہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے“۔
ملا علی قاری مرقاة المفاتح میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا آدم رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل فرشتوں نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا تھااورزمین پر رہنے والے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طواف اور حج کرنے کا حکم دیا تھا۔
الزرقی نے اخبار مکہ میں لکھا ہے کہ امام زین العابدینؓ سے ایک آدمی نے پوچھا ” بیت اللہ کا طواف کب سے ہو رہا ہے؟ “ آپؓ نے فرمایا”اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے بارے میں اطلاع دی تو انہوں نے عرض کیا ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں اور آپ ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا” جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے “
فرشتوں کو اپنی عرض پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی، انہوں نے حالت زاری میں عرش الٰہی کا تین دفعہ طواف کیا۔اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے عرش کے نیچے ”بیت المعمور“ بنا کر فرمایا ”تم اس کا طواف کیا کرو، اس کا ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔ ایک دفعہ طواف کرنے والے دوبارہ نہیں آتے، اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا ”اب تم زمین پر جاو¿۔اسی کی مثل و مقدار کے مطابق زمین پر میرا گھر بناو¿۔“جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کو حکم دیا ”اس گھر کا تم بھی اسی طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔“گویا یہ زمین پرخدا کا پہلا گھر تھا جو فرشتوں کی مدد سے حضرت آدم ؑ نے بنایا۔
تاریخ ابن عساکر اور عزیزی میں درج ہے کہ جب حضرت آدم ؑبہشت سے زمین پر تشریف لائے ۔تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا” خدایا میں یہاں نہ تو ملائکہ کی تسبیح و تحلیل سنتا ہوں ۔ اور نہ کو ئی عباد ت گاہی دیکھتا ہوں۔ جیسے آسمان میں بیت المعمورمیں دیکھتا تھا ۔ جس کے ارد گرد فرشتے طواف کرتے تھے “
جواب میں ارشاد ہوا ” جاﺅ ہم جہاں نشان بتائیں وہاں کعبہ بنا کر اُس کے ارد گردطواف بھی کر لو اوراُس کی طرف رخ کر کے نماز بھی ادا کرو “
حضرت جبرائیل ؑ حضرت آدم ؑ کی رہبری کے لئے اُن کے ساتھ چلے اور اُنہیں وہاں لائے جہاں سے زمین بنی تھی ۔ یعنی جس جگہ پانی پر جھاگ پیدا ہوا تھا ۔ اور پھر یہی جھاگ پھیل کر زمین بنی ۔ حضرت جبرائیل ؑ نے وہاں اپنا پرَ مار کر ساتویں زمین تک بنیاد ڈال دی ۔ جس کو ملائکہ نے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بھرا( کوہِ لبنان ،کوہ طور،کوہِ جودی ، کوہِ حرا، اور طورِزیتا)بنیاد بھر کر نشان کے لئے چاروں طرف کی دیواریں اُٹھا دیں۔اُس طرف حضرت آدم ؑ نماز پڑھتے اور اُس کا طواف کرتے رہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ بیت المعمور کواُتار کر اُس بنیاد پر رکھ دیا گیا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت شیث ؑ نے بھی کعبہ کی تعمیر کی ۔مام ازرقی وہب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ یاقوت کا وہ خیمہ جو سیدنا حضرت آدم ؑ کے لئے جنت سے اتارا گیا تھا آپ ؑکے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھا لیا۔ تب انہی بنیادوں پر آپؑ کی اولاد نے مٹی اور پتھروں سے کعبة اللہ تعمیر کیا اور وہ عمارت طوفان نوح تک قائم رہی۔