حضرت علی ؓ سرکار دو عالمﷺ کا حسن و جمال کیسے بیان فرماتے؟سبحان اللہ ،جو بھی یہ حدیث پڑھے گا،اس کے دل کی کلیاں کھل اٹھیں گی

حضرت علی ؓ سرکار دو عالمﷺ کا حسن و جمال کیسے بیان فرماتے؟سبحان اللہ ،جو بھی ...
 حضرت علی ؓ سرکار دو عالمﷺ کا حسن و جمال کیسے بیان فرماتے؟سبحان اللہ ،جو بھی یہ حدیث پڑھے گا،اس کے دل کی کلیاں کھل اٹھیں گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عظیم محدث امام ترمذیؒ نے اپنی مشہور کتاب ”شمائل ترمذی“ میں بے حد عقیدت، محنت اورعرق ریزی سے حضور کریمﷺ کی سیرت مبارکہ، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو احادیث کی روشنی میں جمع کیاہے۔اس میں سرکار دوجہاں ﷺ کے رخ زیبا کا بیان پڑھ کر دل کی کلیاں کھل جاتی ہے ۔شمائل ترمذی کی جلد اوّل میں امام ترمذی یوں بیان کرتے ہیں۔

”ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لانبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے۔ بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپﷺ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لانبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلاً کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پر گوشت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہو جاتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور قدم مبارک پر گوشت تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے ،گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپﷺ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لا پرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہو جاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ختم کرنے والے تھے نبیوں کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی دل والے تھے۔ اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے۔ اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہو جاتا تھا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اوّل نظر میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آ جاتا تھا) اوّل تو جمال وخوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے ۔شوق افزوں مانع عرض تمنا آداب حسن بارہا دل نے اٹھائے، ایسی لذت کے مزے اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا۔ اس کے علاوہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا۔ اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ واوصاف جمیلہ کا گرویدہ ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بنا لیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا باجمال وباکمال نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ “

مزید :

روشن کرنیں -