سرحد پر لڑتے ہوئے لہولہان فوجی نے دیکھا کہ اسکا دشمن انسان نہیں بلکہ ........جیوں خان کہتا ہے کہ یہ واقعہ سچا ہے
نظام الدولہ
جیون خان ہمارے گاوں کا ایک بہادر سپاہی ہے ۔وہ پاک فوج میں ملازمت کرتے ہوئے صوبیدار سے ریٹائرڈ ہواہے ۔اس نے زیادہ تر ڈیوٹی سرحدوں پر کی ہے ۔جن دنوں وہ سرحد پر ہوتا ،سال میں ایک دوبار ہی اسکو چھٹی ملتی اور وہ گاؤں آتا ۔پچھلے سال جب وہ گاو¿ں آیا تو کافی بیمار تھا ۔اسکو میڈیکل پرچھٹی دی گئی تھی۔ہم نے سوچا کہ وہ سرحد پر دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہوا ہوگا اس لئے اسکو بہتر ہونے کے بعد گاؤں بھیجا گیا ہے ۔سارا گاو¿ں اسکی تیماری داری کرنے اسکے گھر جارہا تھا لیکن ان دنوں میرے بی اے کے پیپر تھے اس لئے میں فوری طور پر اسکی تیمار داری کے لئے نہ جاسکا۔اس دوران جو اس سے مل کر آتا وہ مجھے ایک عجیب و غریب کہانی سناتا جو اسکو جیون خان کی زبانی معلوم ہوئی تھی۔یہ ناقابل یقین کہانی تھی جس پر میں یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ آج کے دور میں ایسے فرسودہ خیالات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تیسرے روز میں بھی اسکا حال دریافت کرنے چلاگیا ۔اسکے چہرے پر کافی زخم تھے جو اب مندمل ہوچکے تھے۔ہاتھ کی انگلیوں پر پٹیاں بندھی تھیں جو ٹوٹ گئی تھیں مگر اب جڑ چکی تھیں،انہیں سیدھا رکھنے کے لئے ان پر پلاسٹر چڑھایا گیا تھا۔ ۔ وہ آسانی سے چل پھر بھی نہیں سکتا تھا ۔اس کے زخموں کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا تھا کہ کسی دشمن کی گولی سے کم ازکم وہ زخمی نہیں ہوا ہوگا کیونکہ اسکے زخموں کی ہیت کچھ ایسا ہی بتا رہی تھی۔
خیر میں نے پوچھ ہی لیا ” کیا واقعی یہ کہانی درست ہے کہ آپ کی کسی ایسی مخلوق سے لڑائی ہوئی ہے جو اس دنیا میں موجود نہیں “
” مجھے تو یہی یقین ہے۔تم کیا سوچتے ہو اس کا مجھے معلوم نہیں“ جیون خان نے کہا” زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے ۔لیکن میں نے جو دیکھا ہے اور جو مجھ پر بیتی ہے اسکو میں جھٹلا نہیں سکتا “
جیون خان نمازی پرہیز گار اور صادق و امین قسم کا مرد ہے ۔مجھے اس لمحہ احساس ہوا کہ ممکن ہے کچھ ایسا ہی ہوا ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے جیون خان اس چیز کی شناخت کرنے سے قاصر رہا ہو۔اس لئے وہ اپنی حد تک سچا تھا ۔
جیوں خان کے ساتھ جو واقعہ گز را،وہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔
جیون خان کی کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بھارتی سرحد پرڈیوٹی تھی،اس کے ساتھ ہی ایک جنگل بھی تھا اور سرحد کے دونوں جانب ایک چھوٹی سی جھیل بھی تھی،عشا ء کا وقت ہوچلا تھا۔جیوں خان نے کیمپ میں جانے کی بجائے وہیں جنگل میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا اور وضو کے لئے وہ جھیل کی طرف چلا گیا جو کیمپ سے سات سو میٹر دور تھی۔ساتھیوں نے اسکو خبردار بھی کیا کہ جھیل پر جا کر وضو مت کرو اور تیمم کرلو ،ایسا نہ ہو دشمن تمہیں دیکھ کر فائر نہ کرڈالے۔لیکن جیون خان جس بات کا ارادہ کرلیتا تھا ،اس پر اڑ جاتاتھا۔
جیون خان بڑی احتیاط سے جھیل پر گیا ،اندھیری رات تھی،آسمان پر صرف ستارے نظر آرہے تھے ،ٹارچ وہ جلا نہیں سکتا تھا کیونکہ اس طرح دشمن اسکو دیکھ لیتا ۔وہ دبے پاو¿ں احتیاط سے واپس ساتھیوں کی جانب جارہا تھا کہ اچانک اسکو محسوس ہوا کہ کوئی بھاری بھرکم جانور ساتھ والی جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہے کیونکہ ایک تو جھاڑیاں ہلنے کی آواز آرہی تھی دوسرا یہ کہ اسکی بھاری بھاری سانس سنائی دے رہی تھی۔اس نے بندوق سیدھی کرلی ،تاکہ جانور سامنے آئے تو اسکو فائر مارسکے ۔لیکن جانور نے اس پر حملہ نہیں کیا ،جیون خان قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔اس دوران جانور کی سانسوں کی آواز تیز اور بھاری ہونے لگی تو اس نے اندازہ لگایا کہ جس راستے سے وہ گزر کر کیمپ میں پہنچنا چاہتا ہے اس راستے میں موجود جھاڑی میں وہ بلا موجود تھی۔اس نے بندوق کی سنگین تان کر جھاڑی کو ہٹایا تو اچانک دو سر خ چمکتی آنکھوں سے تیز روشنی اس پر پڑی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا ،اس بلا نے اس پر حملہ کردیا ۔اسکا جثہ بھاری تھا،بازو لمبے اور سینہ کافی چوڑا تھا ۔جیوں خان بھی مضبوط کاٹھی والا مرد تھا اور جفاکش تربیت یافتہ فوجی تھا۔اس نے ایس ایس جی کی بھی تربیت لے رکھی تھی لہذا اس بلا سے دوبدو ہوتے ہی اس نے مکے برسا کر اسکو اپنے سے دور کیا لیکن اس دوران اسکی بندوق گر گئی ۔بلا اس پر دوبارہ حملہ آور ہوگئی لیکن اس دوران جیون خان کواپنا خنجر نکالنے کا موقع مل گیا اور اس نے داو¿ کھیلتے ہوئے اس کی گردن پر خنجر مارا جو اسکی گردن کے اندر تک گھس گیا ۔اس دوران جیون خان کی آنکھیں اندھیرے سے شناسا ہوچکی تھیں۔ اس نے زور سے خنجر باہر نکالا اور دیکھا کہ خنجر گردن میں پیوست ہونے کے باوجود اس بلا کا خون نہیں نکلا تھا جبکہ اسکے اپنے چہرے اور بازووں سے اس بلا کے ناخنوں کی وجہ سے خون رس رہا تھا ۔یہ منظر دیکھ اسکی اپنی چیخ نکل گئی لیکن اس نے اللہ اکبر کا نعرہ ل؛گا کر اپنے خوف کو باہر نکال پھینکا ۔اسکو سمجھ آگئی تھی اسکا دشمن کوئی انسان نہیں ہے۔
جیوں خان کوشدید دھچکا لگا کہ یہ کون سا جانور ہے جس کا خون نہیں نکل رہا ۔اس لمحہ اس بلا نے جیوں خان کے خنجر والا ہاتھ تھام لیا اور خنجر سمیت ہاتھ مروڑدیا تو اسکی انگلیاں اپنی جڑوں سے اکھڑ گئیں۔بلا نے زوردار آواز میں غراتے ہوئے اسکو ہوا میں اچھالا اور پرے پھینک دیا ۔جیوں خان عین اس جگہ گرا جہاں اسکی بندوق پڑی تھی۔نیچے گرتے ہی اس نے خود کو سنبھالا اور جھٹ سے بندوق سیدھی کی تو عین اس وقت وہ بلا اسکی نظروں سے غائب ہوگئی ۔اس نے دیکھا کہ جس جگہ وہ بلا کھڑی تھی اس جگہ سے آسمان کی جانب روشنی کی ایک لکیر اوپر کو جارہی تھی۔ وہ دم بخود اسکو دیکھتا رہ گیا کہ وہ کیا چیز تھی۔خیر وہ گرتا پڑتا اپنے ساتھیوں تک پہنچا تو وہ اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔اس نے انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنایا تو وہ سناٹے میں آگئے اور کہا” آواز تو ہم نے بھی سنی تھی اور سوچا تھا کوئی جانور چیخا ہے “ جیون خان کو فوری طور پر ایمرجنسی کال کرکے طبی امداد پہنچائی گئی اور اسکے افسروں نے اسکا انٹرویو کیا ۔وہ ہر کسی کو یہی کہانی سناتا رہا ،شاید اسکی بات پر کوئی یقین نہ کرتا لیکن وہ سب اسکی حالت اور اسکی شخصیت کے پیش نظر اسکی باتوں کو رد نہیں کرسکتے تھے۔
جیون خان کا کہنا ہے ” پہلے میں سمجھا تھا وہ کوئی خونخوار جانورہے لیکن جب اس کا خون نہیں نکلا اور پھر وہ اوپر کو روشنی بن کر پرواز کرگیا تو میں اندر تک کانپ گیا تھا کہ وہ کون سی آسمانی اور ہوائی مخلوق تھی جس کا میں مقابلہ کرتا رہاتھا“۔جیون خان کے مطابق حقیقت وہی ہے جو اس نے بیان کردی ہے ۔جس کو وہ جانتا ہے یا پھر اللہ ۔