پہلا حصہ ۔۔۔قبرستان کا بیٹا، ناقابل یقین کہانی جس کا گواہ ایک ڈاکٹر تھا
نازش شاہین
میں آگرہ سے سکندرہ جا رہا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر وسیم اور پرانا ملازم کریم ہمراہ تھا۔ کریم سکندرہ کے قریب وجوار رہنے والا تھا۔ ہماری موٹر سکندرہ کے قریب ایک گورستان سے ہو کر گزری۔ گورستان سڑک کی طرف تقریباً فرلانگ تک چلا گیا تھا۔ شکستہ قبروں کے دردناک منظر سے متاثر ہو کر میں دم بخود بیٹھا تھا۔
’’مجھے ایک دفعہ اسی گورستان میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔‘‘ کریم نے یکا یک میری طرف مخاطب ہو کر کہا۔ وسیم کسی گہری سوچ میں تھا۔ چوکنا ہو کر بولا۔’’کیا کہا کریم‘‘۔
کریم کہنے لگا۔ ’’میں یہاں قریب ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ یہاں کسی زمانے میں شاہی گورستان تھا۔ اس کے اس سرے پر ایک باتونی فقیر رہتا تھا۔ گاؤں کے اکثر لڑکے اس سے کہانیاں سنتے۔ ایک دفعہ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے بعد اس سے کہانیاں سننے چلا گیا۔ کہانیوں میں ہمیں بہت دیر ہو گئی۔ میرے دوستوں نے صلاح کی کہ رات یہیں بسر کی جائے۔ سردی شدت سے پڑ رہی تھی۔ ہم لوگ تکئے کی نیچی چھت والی جھونپڑی میں لوئیوں میں دبکے ہوئے الاؤ کے قریب پڑے تھے۔ گوبر کے دھواں دھار ایندھن سے آنکھیں نہ کھلتی تھیں۔ گورستان کی زہر آلود فضا کوٹھری کے اندر بھی اثر انداز تھی۔ گوبر کے تلخ دھوئیں سے نتھوں میں ہلکی سی جلن محسوس ہونے لگی۔ میں کمبل میں منہ لپیٹ کر سو گیا۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی تو ایک ایسی پر ہول اور لرزہ خیز آواز سنائی دی کہ روح تک کانپ گئی۔ کوئی جان بلب مریض کراہ رہا تھا یا کوئی جاندار دم توڑ رہا تھا۔ سکرات موت کی آخری کھڑ کھڑاہٹ بھی شاید اتنی خوفناک نہ ہو گی۔ یہ آواز گورستان سے آ رہی تھی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ سب کے سب اس لرزہ خیز آواز کو سن کر دہل گئے۔ گوبر کا بدبودار ایندھن جل کر بھسم ہو چکا تھا۔ الاؤ میں گرمی کی آخری رمق بھی مفقود تھی۔ اس قبر نما تاریک کوٹھڑی کے متعفن درد دیوار سے سردی پھوٹ رہی تھی۔ ہمارے دل سینوں میں بے چینی سے دھڑکنے لگے۔ گورکن کونے میں گرم گدے کے بستر پر محو خواب تھا۔ ہم نے اس بمشکل جگایا۔
وہ الاؤ روشن کر کے دیوار کی ٹیک لگا کر اطمینان سے حقے کے لمبے لمبے کش لگانے لگا، خوفناک آواز برابر آ رہی تھی۔ ہم نے پوچھا۔’’ یہ آواز کیسی ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا۔ ’’ اس کی طرف بالکل خیال نہ کرو۔ ایسی آوازیں گورستان سے آتی رہتی ہیں۔ یہ کسی گہنگار روح کو عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
اس بات سے ہماری نیند غائب ہو گئی۔ ہم رات بھر الاؤ کے قریب سہمے ہوئے آگے تاپتے رہے۔ پوپھٹنے پر آواز بند ہو گئی۔ اجالا ہوتے ہی ہم سب وہاں سے بھاگ آئے۔
وسیم نے ایک پر زور قہقہہ لگایا۔
’’گورکن طبقہ بھی لوگوں کو مرعوب کرنے کیلئے کیسی ردایتیں گھڑتا ہے۔ ایسے ویران مقامات پر رات کو اکثر بندر وغیرہ پھرتے رہتے ہیں جن کی آواز سے یہ لوگ دوسرے کو ڈرا کر لطف اٹھاتے ہیں۔‘‘
کریم و حدانیت کا معتقد تھا۔ اس نے مختلف دلیلیں پیش کر کے وسیم کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی رائے نہ بدلی۔ میں بھی کریم کا ہم خیال تھا اس لیے میں نے اس کی تائید کی۔ آخر کار یہ طے پایا کہ کل ہم لوگ بھی تجربے کیلئے اس پرانے تکیے میں رات بسر کریں گے۔
دوسرے دن شام کے قریب ہم لوگ گورستان کی طرف روانہ ہوئے۔ گورستان شہنشاہ اکبر کے مقبرے سے میل بھر کے فاصلے پر تھا اور کسی زمانے میں اس سے بالکل ملحق ہو گا۔ تکیے کا بوڑھا درویش ہنوز زندہ تھا۔ اس سے ہمیں اس گورستان کے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔ ہم نے اسے انعام دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ آج کی رات ہمیں اپنی کوٹھڑی میں جگہ دے اور خود کسی دوسری جگہ رات بسر کرے۔ سائیں کے جانے کے بعد کریم نے کوٹھری صاف کی اور ایک طرف صف پر ہمارے بستر لگا دیے۔ خزاں کا ناساز موسم تھا۔ ہوا میں بے گلی اور فضا میں ایک درد انگیز تھرتھراہٹ تھی۔ رات کی سنسان تاریکی میں درختوں کی برہنہ شاخوں سے رہ رہ کر ایک ہوک سی اٹھتی۔ دیئے کی روشنی کوٹھری کی سیاہ دیواروں میں جذب ہو کر رہ گئی تھی۔ ہم چپ چاپ دم سادھے ہوئے بستروں میں پڑے رہے۔ آدھی رات کے قریب تمام دنیا بحر ظلمات میں غرقاب ہو رہی تھی کہ یکا یک ایک مہیب آواز نے ہمیں خوفزدہ کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا فرشتہ اجل کے پھٹکارنے کی آواز ہے یا داروغہ جہنم کے ان کوڑوں کی جو کسی گہنگار روح پر برسائے جا رہے ہیں۔
کریم اور مجھ پر خوف و ہراس طاری تھا، مگر وسیم پر بجائے خوف کے تعجب کا عنصر غالب تھا۔ وہ جھٹ اٹھا اور ٹارچ ہاتھ میں لے کر باہر نکل گیا۔ ہم نے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھا، مگر اس کے پیچھے جانے کی جرأت نہ ہو سکی۔
تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کونے سے قبریں کھودنے والی کدال لے کر دوبارہ باہر جانے لگا۔ ہم نے بڑے اصرار سے روکا، لیکن وہ ضدی انسان راز کی تہہ تک پہنچنے پر تلا ہوا تھا۔ بے پروائی سے کہنے لگا۔
’’میری فکر مت کرو، میں لاشوں کی صحبت میں بیٹھنے کا عادی ہوں۔‘‘ میں نے کدال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘ تاہم اس کام کیلئے یہ وقت موزوں نہیں۔ صبح دیکھا جائے گا۔‘‘
مگر وہ روکے نہ رکا۔ آخر کریم بھی ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔ اب میرے لیے تنہا یہاں رہنا دشوار تھا۔ جبرً و قہراً ان کیسا تھ ہو لیا۔
ہوا خوفناک آواز کی سرسراہٹ کے ساتھ ناگوار گونج پیدا کر رہی تھی۔ خشک پتوں کی چڑ مڑ کی صدا سے روحوں کے چلنے پھرنے کا گمان ہوتا تھا۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت کے سوکھے تنے کی کوکھ میں سوئے ہوئے گنجے سر والے گدھ ر وشنی پڑتے ہی لمبی لمبی گردنیں باہر نکال کر ہمیں دیکھنے لگا۔ ٹارچ کی جھلملاتی ضو میں ہمارے سائے لانبے اور ڈراؤنے ہو رہے تھے۔ سہمی ہوئی فضا میں قبریں خوف سے سکڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ ہم محسوس کرنے لگے کہ مردے اپنی بے نور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں قبروں سے گھور رہے ہیں اور ابھی اپنے استخوانی ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیں گے۔ اس تکلیف دہ خیال کے زیر اثر میں بارہا اپنے سائے سے ڈر کر اچھلنے لگتا۔ مگر آفرین ہے وسیم پر، وہ جانتا بھی نہ تھا کہ ڈر کسی کو کہتے ہیں، بے کھٹکے قبروں کو روندتا ہوا ایک پرانی قبر پر جا کر کھڑا ہوا۔ اس قبر کا تعویز جو کبھی پختہ تھا، پکے خربوزے کی طرح تڑخ کر پھوٹ چکا تھا۔ اس پر بے حد کا ہی اگ رہی تھی۔ دائیں طرف ایک خزاں رسیدہ جھاڑی تھی جس کی سوکھی ہوئی، لمبی لمبی ٹہنیاں قبر پر پھیلی ہوئی تھیں۔ سرہانے کی طرف پتھر کی سل پر متوفی کا نام وغیرہ کند تھا۔ جوزنگ کی کثرت سے اس وقت نہ پڑھا گیا۔ یہ آواز اسی قبر سے آ رہی تھی۔
وسیم اسے کھودنے کی فکر کرنے لگا۔ بہت جلد اسے محسوس ہوا یہ قبر جو بظاہر پھٹ کر شہد کے چھتے کی طرح کو کھلی ہو رہی ہے۔ د راصل بہت مضبوط ہے۔ وہ جھاڑی کی سوکھی شاخیں ہٹا کر قبر کا کوئی حصہ تلاش کرنے لگا۔
یکا یک اس کا پاؤں جھاڑی کے قریب ایک گڑھے میں جا گرا۔ اسے ٹارچ سے دیکھا تو یہ ایک سوراخ تھا۔ وسیم اس سوراخ کو سر گرمی سے کھودنے لگا۔ کدال کی ضرب پڑتے ہی وہ آواز یکدم بند ہو گئی، مگر دھن کا پکا وسیم اپنے کام میں مصروف رہا۔
قبرستان کا بیٹا
نازش شاہین
میں آگرہ سے سکندرہ جا رہا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر وسیم اور پرانا ملازم کریم ہمراہ تھا۔ کریم سکندرہ کے قریب وجوار رہنے والا تھا۔ ہماری موٹر سکندرہ کے قریب ایک گورستان سے ہو کر گزری۔ گورستان سڑک کی طرف تقریباً فرلانگ تک چلا گیا تھا۔ شکستہ قبروں کے دردناک منظر سے متاثر ہو کر میں دم بخود بیٹھا تھا۔
’’مجھے ایک دفعہ اسی گورستان میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔‘‘ کریم نے یکا یک میری طرف مخاطب ہو کر کہا۔ وسیم کسی گہری سوچ میں تھا۔ چوکنا ہو کر بولا۔’’کیا کہا کریم‘‘۔
کریم کہنے لگا۔ ’’میں یہاں قریب ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ یہاں کسی زمانے میں شاہی گورستان تھا۔ اس کے اس سرے پر ایک باتونی فقیر رہتا تھا۔ گاؤں کے اکثر لڑکے اس سے کہانیاں سنتے۔ ایک دفعہ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے بعد اس سے کہانیاں سننے چلا گیا۔ کہانیوں میں ہمیں بہت دیر ہو گئی۔ میرے دوستوں نے صلاح کی کہ رات یہیں بسر کی جائے۔ سردی شدت سے پڑ رہی تھی۔ ہم لوگ تکئے کی نیچی چھت والی جھونپڑی میں لوئیوں میں دبکے ہوئے الاؤ کے قریب پڑے تھے۔ گوبر کے دھواں دھار ایندھن سے آنکھیں نہ کھلتی تھیں۔ گورستان کی زہر آلود فضا کوٹھری کے اندر بھی اثر انداز تھی۔ گوبر کے تلخ دھوئیں سے نتھوں میں ہلکی سی جلن محسوس ہونے لگی۔ میں کمبل میں منہ لپیٹ کر سو گیا۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی تو ایک ایسی پر ہول اور لرزہ خیز آواز سنائی دی کہ روح تک کانپ گئی۔ کوئی جان بلب مریض کراہ رہا تھا یا کوئی جاندار دم توڑ رہا تھا۔ سکرات موت کی آخری کھڑ کھڑاہٹ بھی شاید اتنی خوفناک نہ ہو گی۔ یہ آواز گورستان سے آ رہی تھی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ سب کے سب اس لرزہ خیز آواز کو سن کر دہل گئے۔ گوبر کا بدبودار ایندھن جل کر بھسم ہو چکا تھا۔ الاؤ میں گرمی کی آخری رمق بھی مفقود تھی۔ اس قبر نما تاریک کوٹھڑی کے متعفن درد دیوار سے سردی پھوٹ رہی تھی۔ ہمارے دل سینوں میں بے چینی سے دھڑکنے لگے۔ گورکن کونے میں گرم گدے کے بستر پر محو خواب تھا۔ ہم نے اس بمشکل جگایا۔
وہ الاؤ روشن کر کے دیوار کی ٹیک لگا کر اطمینان سے حقے کے لمبے لمبے کش لگانے لگا، خوفناک آواز برابر آ رہی تھی۔ ہم نے پوچھا۔’’ یہ آواز کیسی ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا۔ ’’ اس کی طرف بالکل خیال نہ کرو۔ ایسی آوازیں گورستان سے آتی رہتی ہیں۔ یہ کسی گہنگار روح کو عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
اس بات سے ہماری نیند غائب ہو گئی۔ ہم رات بھر الاؤ کے قریب سہمے ہوئے آگے تاپتے رہے۔ پوپھٹنے پر آواز بند ہو گئی۔ اجالا ہوتے ہی ہم سب وہاں سے بھاگ آئے۔
وسیم نے ایک پر زور قہقہہ لگایا۔
’’گورکن طبقہ بھی لوگوں کو مرعوب کرنے کیلئے کیسی ردایتیں گھڑتا ہے۔ ایسے ویران مقامات پر رات کو اکثر بندر وغیرہ پھرتے رہتے ہیں جن کی آواز سے یہ لوگ دوسرے کو ڈرا کر لطف اٹھاتے ہیں۔‘‘
کریم و حدانیت کا معتقد تھا۔ اس نے مختلف دلیلیں پیش کر کے وسیم کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی رائے نہ بدلی۔ میں بھی کریم کا ہم خیال تھا اس لیے میں نے اس کی تائید کی۔ آخر کار یہ طے پایا کہ کل ہم لوگ بھی تجربے کیلئے اس پرانے تکیے میں رات بسر کریں گے۔
دوسرے دن شام کے قریب ہم لوگ گورستان کی طرف روانہ ہوئے۔ گورستان شہنشاہ اکبر کے مقبرے سے میل بھر کے فاصلے پر تھا اور کسی زمانے میں اس سے بالکل ملحق ہو گا۔ تکیے کا بوڑھا درویش ہنوز زندہ تھا۔ اس سے ہمیں اس گورستان کے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔ ہم نے اسے انعام دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ آج کی رات ہمیں اپنی کوٹھڑی میں جگہ دے اور خود کسی دوسری جگہ رات بسر کرے۔ سائیں کے جانے کے بعد کریم نے کوٹھری صاف کی اور ایک طرف صف پر ہمارے بستر لگا دیے۔ خزاں کا ناساز موسم تھا۔ ہوا میں بے گلی اور فضا میں ایک درد انگیز تھرتھراہٹ تھی۔ رات کی سنسان تاریکی میں درختوں کی برہنہ شاخوں سے رہ رہ کر ایک ہوک سی اٹھتی۔ دیئے کی روشنی کوٹھری کی سیاہ دیواروں میں جذب ہو کر رہ گئی تھی۔ ہم چپ چاپ دم سادھے ہوئے بستروں میں پڑے رہے۔ آدھی رات کے قریب تمام دنیا بحر ظلمات میں غرقاب ہو رہی تھی کہ یکا یک ایک مہیب آواز نے ہمیں خوفزدہ کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا فرشتہ اجل کے پھٹکارنے کی آواز ہے یا داروغہ جہنم کے ان کوڑوں کی جو کسی گہنگار روح پر برسائے جا رہے ہیں۔
کریم اور مجھ پر خوف و ہراس طاری تھا، مگر وسیم پر بجائے خوف کے تعجب کا عنصر غالب تھا۔ وہ جھٹ اٹھا اور ٹارچ ہاتھ میں لے کر باہر نکل گیا۔ ہم نے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھا، مگر اس کے پیچھے جانے کی جرأت نہ ہو سکی۔
تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کونے سے قبریں کھودنے والی کدال لے کر دوبارہ باہر جانے لگا۔ ہم نے بڑے اصرار سے روکا، لیکن وہ ضدی انسان راز کی تہہ تک پہنچنے پر تلا ہوا تھا۔ بے پروائی سے کہنے لگا۔
’’میری فکر مت کرو، میں لاشوں کی صحبت میں بیٹھنے کا عادی ہوں۔‘‘ میں نے کدال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘ تاہم اس کام کیلئے یہ وقت موزوں نہیں۔ صبح دیکھا جائے گا۔‘‘
مگر وہ روکے نہ رکا۔ آخر کریم بھی ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔ اب میرے لیے تنہا یہاں رہنا دشوار تھا۔ جبرً و قہراً ان کیسا تھ ہو لیا۔
ہوا خوفناک آواز کی سرسراہٹ کے ساتھ ناگوار گونج پیدا کر رہی تھی۔ خشک پتوں کی چڑ مڑ کی صدا سے روحوں کے چلنے پھرنے کا گمان ہوتا تھا۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت کے سوکھے تنے کی کوکھ میں سوئے ہوئے گنجے سر والے گدھ ر وشنی پڑتے ہی لمبی لمبی گردنیں باہر نکال کر ہمیں دیکھنے لگا۔ ٹارچ کی جھلملاتی ضو میں ہمارے سائے لانبے اور ڈراؤنے ہو رہے تھے۔ سہمی ہوئی فضا میں قبریں خوف سے سکڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ ہم محسوس کرنے لگے کہ مردے اپنی بے نور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں قبروں سے گھور رہے ہیں اور ابھی اپنے استخوانی ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیں گے۔ اس تکلیف دہ خیال کے زیر اثر میں بارہا اپنے سائے سے ڈر کر اچھلنے لگتا۔ مگر آفرین ہے وسیم پر، وہ جانتا بھی نہ تھا کہ ڈر کسی کو کہتے ہیں، بے کھٹکے قبروں کو روندتا ہوا ایک پرانی قبر پر جا کر کھڑا ہوا۔ اس قبر کا تعویز جو کبھی پختہ تھا، پکے خربوزے کی طرح تڑخ کر پھوٹ چکا تھا۔ اس پر بے حد کا ہی اگ رہی تھی۔ دائیں طرف ایک خزاں رسیدہ جھاڑی تھی جس کی سوکھی ہوئی، لمبی لمبی ٹہنیاں قبر پر پھیلی ہوئی تھیں۔ سرہانے کی طرف پتھر کی سل پر متوفی کا نام وغیرہ کند تھا۔ جوزنگ کی کثرت سے اس وقت نہ پڑھا گیا۔ یہ آواز اسی قبر سے آ رہی تھی۔
وسیم اسے کھودنے کی فکر کرنے لگا۔ بہت جلد اسے محسوس ہوا یہ قبر جو بظاہر پھٹ کر شہد کے چھتے کی طرح کو کھلی ہو رہی ہے۔ د راصل بہت مضبوط ہے۔ وہ جھاڑی کی سوکھی شاخیں ہٹا کر قبر کا کوئی حصہ تلاش کرنے لگا۔
یکا یک اس کا پاؤں جھاڑی کے قریب ایک گڑھے میں جا گرا۔ اسے ٹارچ سے دیکھا تو یہ ایک سوراخ تھا۔ وسیم اس سوراخ کو سر گرمی سے کھودنے لگا۔ کدال کی ضرب پڑتے ہی وہ آواز یکدم بند ہو گئی، مگر دھن کا پکا وسیم اپنے کام میں مصروف رہا۔
کریم ٹارچ لیے کھڑا تھا اور میں سوراخ سے نکلتی ہوئی مٹی کو کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پرے پھینک کر جگہ کو صاف کر رہا تھا۔ ایک گھنٹہ میں اس نے سیندھ کے ذریعے قبر کی داہنی طرف اکھیڑ کر رکھ دی اس کے بعد پوری طاقت سے تعویذ کا خول اکھاڑ کر پرے دھکیل دیا۔ اب قبر ہمارے سامنے بالکل کھلی پڑی تھی۔
اف! اس درد ناک نظارے نے ہمارے دل تڑپا دیئے۔ قبر میں لاش کے قریب ایک نوزائیدہ بچہ پڑا ہوا مردے کے پستان چوس رہا تھا۔ قبر میں مردے کا تمام جسم مٹی ہو رہا تھا مگر دونوں پستان تازہ دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ بچے کی شکل نہایت مکروہ تھی۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکلی اور کریم بھی بھوت بھوت کہہ کر پیچھے ہٹا، لیکن وسیم نے بچے کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور کوٹھڑی میں لے آیا۔
دیئے کی مسلسل روشنی سے گھبرا کر بچہ رونے لگا۔ اس کی بھیانک آواز کوٹھڑی کی دھندلی دیواروں سے ٹکرانے لگی۔ میں اور کریم اچک کر ایک کونے میں جا گھسے۔ اف یہ وہی آواز تھی جو قبر کی تہہ سے سنائی دیتی تھی۔ اس آواز میں اتنی کرختگی تھی کہ خدا کی پناہ! ایک ننھے منے بچے کی آواز کہی نہ جا سکتی تھی۔ وسیم بھی پل بھر کیلئے بوکھلا گیا تاہم فوراً ہی حواس درست کر کے بولا۔
’’ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں، اسے کچھ غذا دینی چاہئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ طاقچے میں رکھے ہوئے مٹی کے ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں کوئی کھانے کی چیز تلاش کرنے لگا۔ آخر ایک برتن میں اسے تھوڑا سا گھی مل گیا جو اس نے بچے کو چٹایا اور بچے نے رونا بند کر دیا۔
ہم نے رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ صبح سائیں کے آنے سے پیشتر ہی میں اور کریم گورستان میں گئے اور رات کی کھو دی ہوئی قبر کے تعویذ کا خول بدستور قبر پر رکھ کر سیندھ کو اس مٹی سے بھر دیا جو رات کو وہاں سے نکالی گئی تھی۔ سرہانے کی طرف لگی ہوئی سل سے متوفہ کا نام وغیرہ پڑھنا چاہا حروف زنگ کی تہوں سے بالکل معدوم ہو چکے تھے۔ میں نے رومال پانی میں بھگو کر ان پر رگڑا آخر بڑی مشکل سے شمس النساء پڑھا گیا باقی حروف نہ پڑھے جاتے تھے۔ جب ہم لوگ واپس کوٹھڑی میں آئے تو وسیم بولا۔ ’’ہمیں سائیں کے آنے سے پیشتر ہی یہاں سے چلا جانا چاہیے۔ سائیں کو اس بچے کی برآمدگی سے مطلع کرنا اچھا نہیں۔‘‘
میں نے کہا۔’’ چھپانے سے کیا فائدہ۔‘‘
وہ بولا۔’’ اگر کسی کو معلوم ہو گیا تو یہ بات مشہور ہو جائے گی او تمام دنیا اسے دیکھنے کیلئے ٹوٹ پڑے گی۔ اس طرح یہ بچہ مر جائے گا۔
میں نے کہا۔’’ اس بچے کا پالنا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘
وہ بولا۔’’ کیوں۔ کیا تم نے بڑی بوڑھیوں سے بچپن میں کبھی نہیں سنا کہ کئی لوگوں کو گورستان سے ایسے بچے دستیاب ہوئے جو حاملہ عورتوں کی میتوں نے قبروں میں جنے تھے۔‘‘ میں نے کہا۔’’ یہ تو محض روایتیں ہوا کرتی ہیں بھلا ایسی باتوں پر کوئی یقین کر سکتا ہے۔‘‘
وسیم نے کہنے لگا۔’’ لیکن ایسی صورت میں جبکہ یہ روایت سامنے عملی جامہ پہن چکی ہے خواہ مخواہ قائل ہونا پڑتا ہے۔‘‘
ایک ڈاکٹر کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میں لاجواب ہو گیا۔ اس کے بعد وسیم بچے کو لے کر باہر نکل گیا اور ہم سائیں کے آنے تک وہیں ٹھہرے۔
جاری ہے۔ دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔