آخری حصہ۔۔۔قبرستان کا بیٹا، ناقابل یقین کہانی جس کا گواہ ایک ڈاکٹر تھا
نازش شاہین
دن گزرتے گئے صفدر کو اس سائے کی تکلیف بدستور تھی اور اب اس کی افسردگی حد سے بڑھ چکی تھی ۔ایک دن دیوان صاحب صفدر کو دیکھنے آئے ۔وہ بہت خوش تھے۔ جب سے وہ خط ان کے گھر سے نکلے پھر کبھی انہیں اس سایہ نے نہ ستایا تھا۔ ادھر صفدر ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر میرے ڈر سے نہ کہہ سکتا تھا وہ اکثر میرے سامنے ایسے خیالات کا اظہار کرتا رہتا جس سے میں اسے فاتر العقل سمجھتا اور اسے کہنے سے روک دیتا اوراس لیے وہ میرے سامنے ان کو نہ کہہ سکتا تھا، لیکن آج مجھے بھی استفسار پر مائل دیکھ کر بڑے سست انداز سے کہنے لگا۔
دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’نہ جانے کب اور کہاں میں نے ایک خواب دیکھا تھا پہلے تو مجھے اس کا کچھ زیادہ احساس نہ تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ وہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی، میں نے یہ وہم دور کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ بجائے دور ہونے کے زیادہ مضبوط ہو رہا ہے اب وہ وہم ترقی پر ہے۔ مجھے خوف ہے کہ میں کہیں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔‘‘
وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔ کامل سکوت کے بعد اس نے کہا۔’’ خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک لطیف سی چیز ہوں اور ایک تنگ و تاریک کمرے میں موجود ہوں جس کے درمیان ایک حوض میں الاؤ جل رہا تھا اور آگ کے بڑے بڑے انگارے دہک رہے تھے۔ آگ کے قریب ایک عورت کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک لمبی لمبی آنکھوں والا خوش جوان پژمردہ صورت بنائے کھڑا تھا۔ عورت کہہ رہی تھی کہ اگر ان کی سازش کامیاب ہو گئی تو اسے بہت جلد رہائی مل جائے گی۔ مرد کہنے لگا پر بھا اورنگ زیب عالمگیر کوئی معمولی انسان نہیں اس کے سامنے سازشوں کی کچھ حقیقت نہیں۔‘‘
پر بھا اور اورنگ زیب کے نام پر ہمارے کان کھڑے ہو گئے(دیوان صاحب نے مجھے معنی خیز نگا ہوں سے دیکھا) صفدر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔
’’خوشرو آدمی نے کہا اس معاملہ میں تم بالکل حصہ نہ لو کہیں تم پر کوئی مصیبت نازل نہ ہو جائے۔ میری رہائی کی کوئی امید نہیں۔ اب میرے دل میں صرف ایک حسرت ہے کہ مرنے کے بعد میرا لاشہ اس گردونواح میں نہ رہے بلکہ میرے خاندان کے افراد کے پہلو بہ پہلو دفن ہو۔‘‘
یہ دل شکن باتیں سن کر وہ عورت رونے لگی۔ مرد نے پھر کہا ’’پر بھارودھوکر مجھے بزدل نہ بناؤ بلکہ میری ہمت بندھاؤ اگر ہو سکے تو اپنی راجپوتی شان کے مطابق وعدہ کرو کہ میری آخری آرزو پوری کرنے کی کوشش کرو گی۔‘‘
یہ سنتے ہی عورت فوراً آنسو پونچھ کر تن کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے سنجیدگی سے اس جلتی ہوئی آگ کی طرف اشارہ کر کے جواب دیا کہ بحثیت ایک راجپوت عورت کے اس مقدس اگنی کنڈ پر حلف اٹھا کر کہتی ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو میں آپ کو ضرور کسی شاہی قبرستان میں پہنچا کر چین لوں گی ۔اگر میں مر گئی تو یہ بچہ جو اس وقت میرے پیٹ میں ہے میری قسم کو پورا کرے گا۔
جس وقت وہ عورت قسم کھا رہی تھی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جو الفاظ کہہ رہی ہے وہی حرف بحرف میں دہرا رہا ہوں یا دوسرے لفظوں میں نے بھی وہی قسم اٹھائی۔ اس کے بعد کے حالات کا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ البتہ روز بروز میری بے قراری بڑھ رہی ہے اور میں ہر وقت انہی خیالات میں غرق رہتا ہوں۔‘‘
دوسرے دن دیوان صاحب نے مجھے اور وسیم کو بلا بھیجا اور کہنے لگے۔’’ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ صفدر وہی پر اسرار بچہ ہے جس کا ذکر شہزادہ مراد کی بیگم نے اس خط میں کیا تھا اور اس لڑکے کی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی روح بیدار ہے اور کسی پر اسرار دنیا میں اس قسم کی ادائیگی کا اقرار کر چکی ہے۔‘‘
وسیم کہنے لگا۔’’اتنی صدیوں کے بعد ایک گمنام لاش کی جستجو کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔‘‘
دیوان صاحب بولے۔’’ تمہیں قسم کی ادائیگی یا ااس سے کیا غرض، لڑکے کو صرف اس خیال سے وہاں لے جانا چاہئے کہ شاید اس سرزمین پر اس کے قدم پڑنے سے ایک بے چین روح کو تسکین ہو جائے اور وہ اسے چھوڑ دے۔‘‘
ان پے درپے انکشافات نے ہمیں چکر میں ڈال رکھا تھا اس لیے دیوان صاحب کے کہنے پر ہم صفدر کو سیر کے بہانے گوالیارلے گئے۔
گوالیار پہنچ کر دوسرے دن ہم قلعہ دیکھنے گئے زمانہ قدیم کی صنعت و عجائبات دیکھتے ہوئے اس عظیم الشان دمدے پر چڑھ گئے جہاں شاہی محلات تھے۔ وہاں ایک مضبوط قسم کا بوڑھا جاٹ چوکیدار ہمیں ملا جوسر پر گاڑھے کا بڑا سامنڈا سا بانڈھے کھڑا تھا۔ اس کی کچھڑی داڑھی چڑھی ہوئی تھی ا ور گھنے ابروؤں کے نیچے دو گول چمکتی ہوئی آنکھوں سے سخت گیری جھلک رہی تھی ۔یہ شخص بالکل گنوار تھا۔ اس نے ایک خاص انداز سے تن کر ہمیں سلام کیا پھر ہاتھ سے ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کر کے آگے ہو لیا۔ وہ کئی ایک زینے اور بھول بھلیاں طے کرتا ہوا ہمیں ایک وسیع صحن میں لے گیا جس کے اردگرد بڑے بڑے فراخ دالان مورتی نماستونوں پر کھڑے تھے۔ ویران محل کے اداس درودیوار چرخ ناہنجار کی ہلاکت آفرینیوں کا گلہ زبان حال سے کر رہے تھے۔ بوڑھے چوکیدار نے اپنی پھٹی ہوئی جیب سے ایک زردرنگ کا بوسیدہ کاغذ نکالا اور اسے دیکھ کر کہنے لگا’’ یہ وہ جگہ ہے جہاں اورنگ زیب نے بچپن راجے ایک مدت و راز تک مقید رکھے ۔آخر کار سری گوبند جی مہاراج نے انہیں رہائی دلائی‘‘
اس کے بعد وہ واپس لوٹا اور شان تحکم سے ہمارے آگے چلنے لگا گویا یہ علیشان قلعہ اس کے باپ دادا کی ملکیت ہے ۔وہ بے شمار زینے اترتا کئی تکونی ڈیوڑھیاں اور نیم چھت بخارچیاں عبور کرتا ہوا ہمیں ایک تہہ خانے میں لے گیا۔ اس اندھیرے گپ میں ہم بہت گھبرائے مگر بوڑھے چوکیدار نے جھٹ لمپ روشن کر دیا ۔ برقی روشنی سے تہہ خانہ کی تاریک و بدنما سنگی عمارت جگمگا اٹھی ۔اس تہہ خانے کی درمیانی گنبد نام چھت سنگین ستونوں پر کھڑی تھی جن کی محرابوں کے دونوں طرف موٹے موٹے آہنی کڑے لٹک رہے تھے اور ستونوں کے پیچھے چاروں طرف ایک تاریک روش بنی ہوئی تھی۔ زینے کی سنگین جالیوں سے آنے والی ہوا کے پریشان جھونکے تہہ خانے کے قبر نما تنگ دروازے سے داخل ہو کر ایسی درد ناک آواز پیدا کر رہے تھے جیسے کوئی بدقسمت اسیر سسکیاں لے کر رو رہا ہو، گنوار چوکیدار نے جھٹ زرد کاغذ جیب سے نکالا اور پڑھ کر کہنے لگا۔ اس تہہ خانے میں مجرموں کو تہ تیغ کیا جاتا تھا ۔
ہم چوکیدار کی باتیں سن رہے تھے اور صفدر پاگلوں کی طرح چکر لگانے میں مصروف تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کی تلاش میں ہے۔ کچھ دیر بعد وہ خاموشی سے ستون کی ٹیک لے کر سوچنے لگا۔ پھر چوکیدار سے کہنے لگا۔
’’تمہارا نام کیا ہے اور تم کب سے یہاں ملازم ہو۔‘‘ بوڑھے نے جھٹ جیب سے زرد کاغذ نکال کر دیکھا ور جواب دیا۔’’ہمارا نام دھرم دیو ولد شنکر دیو ولد گوپامل دیو ولد سرجن دیو ولد دھن دیو ولد سری ناتھ دیو ہے۔ ہم پشت ہا پشت سے اس قلعہ کے محافظ ہیں۔‘‘ بوڑھے کی زبان ایک ہی سانس میں دیوؤں کا شجرہ نسب سن کر ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی۔ صفدر بھی مسکرا دیا۔
اس پر بوڑھا چوکیدارفخر سے اکڑتا ہوا تہہ خانے سے نکلا اور پھر اس سے بھی نیچے جانے کیلئے زین سے اترنے لگا ۔یہ زینے بہت ہی تنگ و تاریک تھے مگر چوکیدار بجلی کے قمقمے روشن کرتا گیا۔ اس لیے کوئی خاص دقت نہ ہوئی۔ ان زمین دوز زمینوں کے اختتام پر تحت الثری میں ایک تہہ خانہ تھا جس کی ہوا نہایت کثیف اور نم آلود تھی۔ یہ کمرہ بلاشبہ ظلمات کا نمونہ تھا۔ گو بجلی روشن تھی مگر اندھیرا پوری طرح دور نہ ہوا تھا۔ ستونوں سے باہر والی روش کی دیواریں سیاہی مائل دھندلی سی دکھائی دیتی تھیں۔ ہم آگے تھے اور صفدر کسی گہری سوچ میں پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ تہہ خانہ بھی ہو بہو اوپر والے تہہ خانے کا نقشہ تھا وہی ستونوں پر جھکی ہوئی گنبد نما چھت ۔وہی محرابوں میں لٹکتے ہوئے آہنی کڑے ۔اسی طرح کی روش ،البتہ یہاں ایک چیز کا اضافہ تھا۔ تہہ خانے کے عین درمیان کوئی چار پانچ فٹ گہر حوض بنا ہوا تھا ۔چوکیدار زرد کاغذ دیکھ کر کہنے لگا۔’’ صاحبان! یہ وہ تہہ خانہ ہے جہاں اورنگ زیب بادشاہ نے اپنے بھائی شہزادہ مراد کو قید رکھا تھا۔ اس حوض کو اگنی کنڈ کہتے ہیں۔‘‘ جونہی بوڑھے کی زبان سے یہ الفاظ نکلے صفدر ہمیں دھکیلتا ہوا آگے بڑھا اور بے تحاشا چیخ مار کر اس حوض میں کود گیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آہ یہ وہی جگہ ہے اور یہی اگنی کنڈ ہے جہاں خواب میں میں نے ایک عورت کو قسم اٹھاتے دیکھا تھا۔‘‘
بہت دیر تک وہ اس تہہ خانے میں دیوانہ وار پھرتا رہا۔ آخر کار بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر ہم ڈیرے پر واپس لائے۔
گوالیار آئے ہمیں تین دن گزر چکے تھے ،ہفتے کی رات تھی ۔یکا یک کریم نے ہمیں جگا کر اطلاع دی کہ صفدر غائب ہے ۔اس خبر سے ہمیں سخت تشویش ہو گئی ہمیں خطرہ تھا کہ وہ کسی نئی مصیبت کا شکار نہ ہو جائے۔ ہمیں یقین تھا کہ وہ ضرور قلعے کی طرف گیا ہو گا ۔ چنانچہ ہم لوگ اسی وقت تیز رفتاری سے اس کے تعاقب میں روانہ ہو گئے ۔گوالیار گیٹ کے قریب ہمیں ایک سایہ دکھائی دیا۔ یہ صفدر تھا جو اندھا دھند قلعے کے صدر دروازے کی طر ف جا رہا تھا۔ وسیم کی رائے تھی کہ اس کے کسی کام میں دخل نہ دیا جائے اور چپ چاپ اس کا تعاقب کر کے دیکھیں کہ وہ کیا کرتا ہے۔
دروازے کے قریب پہنچ کر ہمیں انتہائی تعجب ہوا کیونکہ قلعے کے صدر دروازے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی ۔صفدر اس کھڑکی کی راہ سے اندر داخل ہو گیا۔ ہم بھی دبے پاؤں دروازے کے قریب گئے ۔کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو ایک عجیب نظارہ دکھائی دیا ۔بوڑھا چوکیدار ہاتھ میں زرد کاغذ پکڑے دیوار کی طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ دیوار پر اس کے دو سائے پڑ رہے تھے ۔وہ دیوانوں کی طرح اس سایوں سے باتیں کر رہا تھا۔ چاند اس وقت پوری تابانی سے روشنی کے فوارے اچھال رہا تھا اور سامنے فلک شکوہ پہاڑ قلعہ گوالیار کو اپنی ہتھیلی پر رکھے نیرنگی دہر پر مبہوت کھڑا تھا۔ اس پہاڑی قلعہ پر چڑھتی ہوئی اونچی اور پچیدار سڑک شفا کرنوں کی نورانی چادر میں ڈھکی ہوئی تھی ۔
صفدر سڑک پر دیوانہ وار دوڑتا ہوا جا رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دل میں آرزوؤں کا خوفناک شعلہ بھڑک رہا ہے۔ رات کے بھیانک سکوت میں وہ خوفناک کھڈوں اور تاریک کھائیوں کی طرف جھک کر مدہوشی میں کھوئے ہوئے خوابیدہ درختوں سے پر بھا کا پوچھتا فیل نما سرکش چٹانوں سے اس کا حال دریافت کرتا مگر اس کی آواز سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی۔ وہ کھنڈوں اور کھائیوں سے صدائے بازگشت کے سوا کوئی جواب نہ پاتا۔
وہ بے تابانہ بڑھتا جا رہا تھا پھر وہ مہماتما جین کی طویل القامت مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ یکا یکک ایک بگولہ اٹھا جو کالی مہیب دراڑوں اور ویران کھنڈروں سے درد ناک آواز پیدا کرتا ہوا چٹانوں سے ٹکرانے لگا ۔ایسا معلوم ہوا کہ جین کی عظیم الہیت مورتی جس کے پاؤں تحت الثری میں اور سر آسمان سے چھو رہا تھا کانپ رہی ہے ۔اس کی گیان دھیان میں مگن اور آسمانی اسرار سے واقف آنکھیں اس پر گڑی ہیں ۔اس کے مقدس لبوں کو جنبش ہو رہی ہے ۔عین اسی وقت ایک تاریک ابرنے چاند کے منہ پر نقاب ڈال دی۔
صفدر پھر آگے بڑھا۔ اب اس کی حالت سکون پذیر تھی اور وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو چکا تھا ۔دمدمے کے زینے پر چڑھ کر اب وہ محلات کی طرف بڑھا ۔محلات تک پہنچ کر وہ زمین دوزتہہ خانے میں اتر گیا ۔ہم اس کے پیچھے پیچھے تھے ۔اس کے تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی وہی پر اسرار سایہ سامنے کی دیوار پر نمو دار ہو گیا۔
مگر اب وہ صفدر کے سائے کے قریب نہ تھا بلکہ ذرا فاصلے پر تھا ۔سایہ اس انداز سے محترک تھا جیسے صفدر کی کوششوں پر جوش مسرت سے کانپ رہا ہو۔ صفدر اگنی کنڈ کے قریب جا کر ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگا۔’’آج مجھے مہماتما جین نے عجیب راز بتایا ہے ۔میں آپ لوگوں کو اس مقدس اگنی کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ میں کس کا بیٹا ہوں۔‘‘
سنسان رات کے وحشت خیز سناٹے اور خوفناک تہہ خانے کی پر ہول فضا میں جبکہ کئی صدیوں کی ایک بچپن روح اپنا سیاہ فوٹو سامنے والی دھندلی دیوار پر کھینچ رہی تھی ،ہم اس واقعہ کو نہ چھپا سکے۔ اگر ہم غلط بیانی سے کام لیتے تو شاید یہ عکس ہم پر جھپٹ پڑتا ۔محرابوں میں سے ستونوں کے بھدے سائے کہنہ دیواروں پر اس طرح پڑنے لگے جیسے آہنی کڑوں کے ساتھ انسانی دھڑلٹک رہے ہوں ۔ہم نے کانپتے ہوئے اس کے قبر سے برآمد ہونے کے علاوہ پرانی تحریروں کے متعلق بھی سب کچھ بتا دیا جو وہ نہایت متانت سے سنتا رہا۔ جب ہم یہ ذکر کر چکے تو وہ چوکنا ہو کر کہنے لگا ’’آپ نے بھی کچھ سنا ‘‘ہم نے تو نفی میں جواب دیا مگر کریم تھراتے ہوئے بولا۔’’ہاں میں نے سنا ہے۔‘‘ ابھی یہ بات اس کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ یکا یک ایک دل ہلا دینے والی ڈراؤنی آواز سنائی دی ۔ہمارا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُف! خدا کی پناہ یہ آواز ہڈیوں کی کھڑکھڑاہٹ تھی جو ایک تاریک کونے سے سنائی دے رہی تھی میری روح کھینچ کر آنکھوں میں آ گئی۔ میں ٹکٹکی باندھ کر اس کونے کی طرف دیکھنے لگا میرا خیال تھا کہ ابھی ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ ہمارے سامنے آ کھڑا ہو گا مگر خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہ ہوا البتہ وہ دلخراش کھڑ کھڑاہٹ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد بدستور ہوتی رہی صفدر بالکل بے خوف و ہراس اس دیوار سے کان لگا کر اس آواز کو سن رہا تھا آخر کار اس نے کہا، ضرور اس جگہ کہیں میرے باپ کی ہڈیاں مدفن ہیں۔
دیوار کے پیچھے ٹھوس پہاڑ تھا۔ اس نے دریچہ نما ڈیوڑھی کی طرف جو دیوار تھوڑا سا حصہ خالی تھا جا کر دیکھنا شروع کیا اس کی جگہ برقی روشنی صاف طور پر نہ پڑتی تھی اس لیے بہت وقت پیش آئی، آخری بڑی مشکل سے اسے دیوار میں ایک چھوٹے سے دروازے کی ڈاٹ نظر آئی جو بعد میں پتھروں سے چن دی گئی اس ڈاٹ کا درمیانی حصہ بجا کر دیکھنے سے کھوکھلا معلوم ہوتا تھا۔ صفدر نے کریم سے اس کا شکاری چاقو لے کر پتھریلی دیوار کھودنا شروع کی اور گھنٹہ بھر کی لگاتار کوشش سے ایک پتھریلی اینٹ نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد وہ اس سوراخ میں ہاتھ ڈال کر اینٹوں کو زور زور سے اکھاڑنے لگا اس کا خیال صحیح نکلا۔ یہاں کسی زمانے میں ایک الماری بنی ہوئی تھی جس کا دروازہ ڈیوڑھی میں تھا جب دیوار میں کافی سوراخ ہو گیا تو ہم بھی اس کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگے اور مسلسل محنت کے بعد ہم نے دہ چنی ہوئی ڈاٹ پوری کھول کے رکھ دی۔ یہ ایک الماری کا خانہ تھا جس میں انسانی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا، صفدر اس ڈھانچے کے قریب دوزانوبیٹھ کر دعا کرنے لگا ۔ہم بھی اس کے ساتھ دعا میں شامل تھے گویا یہ ایک بدنصیب تاجدار کی نماز جنازہ تھی جو تین صدیوں کے بعد چار آدمیوں نے پاتال کی گہرائیوں میں نہایت بے سروسامانی سے ادا کی۔ دعا کے بعد وہ ہڈیوں کو بوسہ دے کر اٹھا اور گلوگیر آواز میں کہنے لگا۔‘‘ اب ان مقدس ہڈیوں کو یہاں سے کس طرح لے جائیں۔‘‘ کریم نے اپنا کمبل زمین پر پھیلا دیا جس میں سب ہڈیاں اکٹھی کر کے باندھ لی گئیں ہم تہہ خانے سے نکل کر بسرعت تمام پہاڑی راستہ عبور کر کے نیچھے صدر دروازے کے قریب پہنچے بوڑھا چوکیدار ابھی تک اس طرح سایوں سے باتیں کر رہا تھا ہم چپ چاپ باہر نکل آئے۔
اس واقعہ کے بعد دوسرے دن ہم پھر ایک دفعہ سکندرہ آئے کیونکہ اس فقیر کی مدد سے ان ہڈیوں کو وہاں ٹھکانے لگانا آسان تھا چنانچہ ایسا ہوا، رات کے وقت جب کہ آسمان تاریک بادلوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کسی ناشاد کی شوئی بخت پر ٹھنڈی سانسیں بھر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صدیوں سے محوآرام شاہی خاندان کی روحیں اپنے ایک فرد کی آمد کے انتظار میں چشم شوق وا کیے پرانی قبروں سے جھانک رہی ہیں ہم ان ہڈیوں کو کفن میں باندھ کر وہاں لے گئے بوڑھا فقیر اور کریم ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے قبرستان میں گڑھا کھود رکھا تھا جہاں اس گمنان تاجدار کی پامال شدہ ہڈیوں کو دبا دیا گیا۔
صفدر نے اپنی ماں کی شکستہ قبر بھی دیکھی اس کی حالت دیکھ کر وہ بہت آزردہ ہوا۔ میں نے فوراً اس کی مرمت کا انتظار کر دیا دوسرے دن شام تک مرمت ہو گئی شام کے قریب ہم اسے واپس لائے تو وہ بالکل پاگل ہو چکا تھا۔ اسے بڑی مشکل سے سلا دیا گیا مگر آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو صفدر بستر پر موجود نہ تھا، میں نے بدحواسی سے وسیم اور کریم کو جگایا اور اس کی تلاش شروع کی۔ رات سخت اندھیری تھی ہاتھ پسارے کچھ سمجھائی نہ دیتا تھا جھکڑ کے تھپیڑے ہمیں دھکیل دھکیل کر پیچھے ہٹا رہے تھے آندھی کا غبار ہمارا راستہ روکننے کے درپے تھا اور درخت غیظ و غضب سے دوہرے ہو کر ہمیں پکڑنے کو دوڑ رہے تھے ۔ہم اس کی تلاش میں قبرستان کی طرف روانہ تھے۔ صبح تک ہم سرگرداں رہے۔ صبح کے وقت ایک جھاڑی کے قریب ہمیں صفدر کے پاؤں کا ایک بوٹ پڑا ملا۔ بوٹ کو دیکھ کر ہمیں کچھ تسلی ہوئی کریم کہنے لگا۔ ’’وہ کہیں قریب وجوار میں ہی ہو گا اور ضرور اپنی ماں کی قبر پر آئے گا۔ یہاں اس کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘ اس کی ماں کی قبر دیکھ کر ہمیں بہت حیرت ہوئی اس نئی بنی ہوئی قبرے عین درمیان ایک لمبی لکیر نمو دار ہو رہی تھی گویا معلوم ہوتا تھا کہ قبر شق ہو کر دوبارہ ملی ہے ۔میں گہری سوچ میں پڑ گیا یکا یک میری نظر ایک عجیب چیز پر پڑی انتہائی رنج و غم سے میری چیخ نکل گئیں۔ سرہانے کے قریب قبر کی لکیر نما دراز سے صفدر کے کوٹ کا کونہ باہر لٹک رہا تھا۔وہ واپس اپنی دنیا میں جاچکا تھا ( ختم شد)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔