جھوٹا آسرا
تحریر: پیر ابو نعمان سیفی
بے اولادی کا غم انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔جہاں اسے آسرا ملتا اس در پر پہنچ جاتا ہے اور بسا اوقات عزت بھی گنوادیتاہے۔میں آپ کو اپنے ایک عقیدت مند کی کہانی سناتا ہوں۔نصیر خان کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس میں اور اسکی جواں سال بیوی میں کوئی ایسی خامی نہیں ہے جس کی وجہ سے انکی اولاد نہیں ہوسکتی ،وہ وقت کا انتظار کریں، ایک دن ان کو اولاد جیسی نعمت حاصل ہوجائے گی ۔ضروری نہیں ہے کہ شادی کے پانچ سال تک اولاد نہ ہوسکے تو انسان ہمت ہار بیٹھے ۔اللہ کی رضا سے پندرہ پندرہ سال بعد بھی لوگوں کو مراد مل جاتی ہے ۔لیکن نصیر خان کا غم ختم نہیں ہورہا تھا،اس دلاسہ پر بڑا تلملاتا تھا ’’ جب میں بھی ٹھیک ،تو بھی ٹھیک تو اولاد کیوں نہیں ہوپارہی ۔ضرور کسی نے جادو کردیا ہے۔یا پھر تیری کمر کا قصور ہے۔ڈاکٹروں کو تیرے مرض کی سمجھ نہیں آرہی ،تجھے میں اب پیر صاحب کے پاس لے کر جاتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ اس کو مسئلہ کیا ہے‘‘اسکی بیوی کو کمر میں چند گلٹیاں تھیں جن میں درد ہوتا تو سینے تک آپہنچتا ۔ایک حکیم نے انہیں تسلی دے دی تھی کہ یہ گلٹیاں کینسر کی نہیں ہیں لہذا وہ مطمین بھی تھے کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن کبھی کبھی نصیر خان کو وہم ہوجاتا جیسے ان گلٹیوں کی وجہ سے بیوی حمل سے محروم رہتی ہے ۔زیادہ پیسے والا تو نہیں تھا کہ اس بارے میں اچھے ڈاکٹروں سے علاج کراتا اور اپنا وہم دور کراتا ،خود ہی ٹونے ٹوٹکے آزماتا رہتا اور کبھی کبھار بیوی کو کوسنے لگ جاتا ۔اسکے باوجود اسکی محبت میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔
نصیر خان پہلے غیر مسلم تھا۔شادی سے پہلے بھی وہ میرے پاس آتا تھا۔اسکی بہن کو سایہ تھا جس کا میں نے علاج کیا تو اس سے اچھا خاصا تعلق بن گیا اور میری پندو نصیحت کے بعد اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔اسے ایک عورت سے محبت ہوگئی اور اس نے شادی سے پہلے مجھ سے اسکے متعلق استخارہ بھی کرایا تھا اور میں نے اسے حساب لگا کر بتایا تھا کہ آنے والی زندگی میں انہیں ازدواجی مسائل درپیش ہوں گے۔ایک دن وہ اپنی بیوی کو لیکر میرے پاس آیاتو میں نے اسکی کمر کی گلٹیوں کے لئے دم کرکے پانی دیا مگر ساتھ ہی کہا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا کر علاج کراؤ ۔کیونکہ دعا کے ساتھ دواء کرنا بھی ضروری ہوتا لیکن اس نے میری ہدایت پر عمل نہ کیا۔
انہیں دنوں اسکی ملاقات ایک بیوہ عورت سکینہ سے ہوئی ،اسکی دوچھوٹی بیٹیاں تھیں۔وہ نصیر خان کی دوکان پر سودا لینے آئی اور جاتے ہوئے اسکا دل بھی لے گئی۔نصیر خان اور سکینہ میں تعلق اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اسکا ذکر کرنے لگااوراس سے شادی کے خواب دیکھنے لگا’’ لیکن تمہاری بیوی کے ہوتے ہوئے میں شادی کیسے کرسکتی ہوں۔میں اس کا حق نہیں مارنا چاہتی‘‘سکینہ نے کہا’’ اگر تم اولاد کی خاطر شادی کرنا چاہتے ہو تو میں تمہارا کام کرسکتی ہوں‘‘
’’وہ کیسے‘؟‘ نصیر خان نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ میرے ایک جاننے والے پیر سائیں ہیں جو گلٹیوں کا علاج چٹکی بجا کے کرتے ہیں ۔گلٹیاں ختم ہوگئیں تو تماری بیوی کو بچہ بھی ہوجائے گا‘‘سکینہ نے اسے رام کرتے ہوئے کہا’’ مجھے بھی اولاد نہیں ہورہی تھی ۔پھر پیر سائیں نے دم کیا تو میری گود ہری ہوگئی‘‘
نصیر خان نے اپنی بیوی کواسکے بارے بتایا اور ایک روز وہ سکینہ کے ساتھ لاہور کی ایک گنجان اور گندی ترین بستی میں چلے گئے۔پیر سائیں وہاں گندے نالے کے پاس اپنا حجرہ بنا کر رہتا تھا ۔
وہ نام کا ہی مسلمان تھا۔کافی لوگ وہاں بیٹھے اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔یونہی دو گھنٹے بعد انکی باری آئی تو پیر سائیں نے نصیر خان کی بیوی کو دیکھتے ہی کہا’’ اس پر تو بڑا سخت جادو کیا گیا ہے ۔پورا شریر جادو جادوہے۔اسکا علاج بڑا مشکل ہوگا‘‘ سکینہ نے پیر سائیں کو کچھ روپے دلوائے اور علاج کرنے کے لئے التجا کی ۔پیر سائیں نے انہیں اگلے روز دوبارہ آنے کا وقت دیا لہذا نصیر خان اگلے دن بیوی کو لیکر پیر سائیں کے پاس پہنچا تو باری آنے پر انہیں حجرے میں بلالیا گیا۔پیر سائیں کچھ دیر آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہا ،پھر پاس رکھی کچھ ہڈیاں اٹھائیں اورمنتر شنتر پڑھ کر ان پر پھونکتا رہا۔اس دوران اسکی آنکھیں سرخ ہونے لگیں ۔اس نے اٹھ کر ایک دائرہ کھینچا اور اسکی بیوی کو اسکے اندر بیٹھا کر نصیرخان سے کہا ’’ تو حجرے سے سو گز دور چلا جا ورنہ یہ بلائیں تجھ پر حملہ کردیں گی‘‘
نصیر جلدی سے اٹھا تو اسکی بیوی بھی گھبرا کر باہر نکلنے لگی تو پیر سائیں نے موٹی سی گالی دیکر اسے دائرے میں ہی بیٹھا رہنے کا حکم دیا’’ خود بھی مرے گی اور مجھے بھی مارے گا۔اب ہلنا نہیں‘‘
وہ سہم کر بیٹھ گئی ،اس نے عبایہ سے خود کو لپیٹ رکھا تھا ۔پیر سائیں نہ جانے کیا کچھ پڑھتا،دھونیاں دیتا ہوا اسکے گرد چکرانے لگا اور پھر اسکو عبایہ اتارنے کا حکم دیا۔وہ مزید سہم گئی تو پیر سائیں تیز لہجے میں اسکو ڈرانے لگا’’ اگر میری باتوں پر عمل نہ کیا تو چڑیلیں تیرے سارے بدن کو چیر کر رکھ دیں گی۔۔۔ جلدی کر ،منتر پورا ہونے سے پہلے اپنا عبایہ اتاردے‘‘ اس خوفزدہ سی عورت نے عبایہ اتارا تو پیر سائیں بولا ’’ جلدی سے اپنی قمیض بھی اتار کیونکہ میں نے گلٹیوں پر منتر لکھنا ہے‘‘ بے چاری نے خود کو بہت بچانے کی کوشش کی لیکن پیر سائیں نے اسقدر اسکو ہراساں کردیا کہ وہ اسکی بات ماننے پر رضا مند ہوگئی۔پیر سائیں کا شیطان جاگ اٹھا اور وہ دائرے میں داخل ہوکر اسکے بدن سے حریصانہ لمس کا لطف لینے لگا،دس منٹ تک اس نے خاتون کو بے حال کردیا اور پھر جب وہ کپڑے پہن کر باہر آئی تو اسکی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں،اس نے نصیر خان کو کچھ بتانے کی کوشش کی تو پیر سائیں پہلے ہی بول پڑا’’ ہم نے تیری بیوی کو چڑیلوں سے بچا لیا ہے،اب یہ ٹھیک ہوجائے گی‘‘
گھر پہنچ کر بیوی نے نصیر خان کو اصل واقعہ بتادیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہا’’ تونے بچہ لینے کے واسطے میری عزت بیچدی ہے ‘‘ اس نے نصیر خان سے طلاق کا مطالبہ کردیا’’ تیرے جیسے بے غیرت شوہر کے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہ سکتی اب ۔تو اس حرام زادی کے ساتھ بیاہ کرلے جس نے جان بوجھ کر مجھے ذلیل کرایا ہے۔‘‘ نصیر خان نے اس سے معافی مانگ کر اسے ٹھنڈا کیا اور پھر وہ اسے لیکر میرے پاس آیا۔دونوں نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا’’ پیر صاحب غریب لوگ آسرے تلاش کرتے ہیں لیکن انہیں کیا معلوم مسیحا کون ہوتا ہے اور لٹیرا کون۔ہمارا تو ایمان ہی لٹ گیا ہے‘‘میں نے انہیں سمجھایا کہ اللہ اور رسول اللہ کی اتباع کرنے والوں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے لیکن آنکھیں کھلی رکھنا توہم سب کا فرض ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات عام ہوچکے ہیں،منبر اور حجرے کا تقدس پائمال ہورہا ہے ،پیری فریب اورکاروبار بھی بن چکی ہے۔حکومت جب تک ایسے بازاری پیروں کو سخت ترین سزائیں نہیں دے گی،لوگوں کا ایمان ،عزت اور مال لٹتا رہے ۔
(پیر ابو نعمان جامعہ جیلانیہ رضویہ حسنین آباد آباد لاہور کینٹ کے منتظم اور باکمال صوفی بزرگ ہیں ۔ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔snch1968@gmail.com)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔