بلدیاتی انتخابات۔غیر یقینی ختم ہو رہی، جماعتوں نے تیاری شروع کر دی!

بلدیاتی انتخابات۔غیر یقینی ختم ہو رہی، جماعتوں نے تیاری شروع کر دی!
بلدیاتی انتخابات۔غیر یقینی ختم ہو رہی، جماعتوں نے تیاری شروع کر دی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :۔ چودھری خادم حسین

  ملک میں بلدیاتی انتخابات کا نقارہ بج ہی چکا اور بتدریج امیدواروں اور رائے دہندگان میں حرکت پیدا ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ کنٹونمنٹ کے انتخابات ہیں جن کی تاریخ متعین ہوئی اور شیڈول پر بھی عمل شروع ہو چکا، بہرحال ابھی ان سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئی کہ صوبے میں انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان باقی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے بیانات کے ذریعے تنظیموں اور کارکنوں کو ہدایات دی گئی ہیں لیکن عملی طور پر کام شروع نہیں ہوا۔ البتہ تحریک انصاف میں حرکت نظر آنے لگی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حالت ذرا پتلی نظر آئی کہ تنظیمی ڈھانچہ ہی کمزور ہے۔ بہرحال تیزی تو مسلم لیگ (ن) میں بھی نہیں احساس یہ ہے کہ اب یہ سب جماعتیں متحرک ہوں گی تو انتخابی ماحول بنے گا۔ ابھی تو پارلیمانی بورڈ بنتے ہیں جن کی سفارشات پر ٹکٹ تقسیم ہوں گے۔ کنٹونمنٹ بورڈوں میں انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کے حکم سے یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ صوبوں میں بھی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ بلوچستان میں تو ہو چکے ، سندھ حکومت نے پہلے ہی جماعتی طرز انتخاب کا اعلان کیا اور خیبرپختون خوا میں عمل ہو رہا ہے۔ صرف پنجاب باقی ہے جس کا اعلان متوقع ہے، بعض حلقوں کے مطابق پنجاب میں بلدیاتی ڈھانچے میں تبدیلی آئے گی اور یونین کونسل کا نظام ایوب کے بی ڈی نظام کے مماثل بنایا جائے گا کہ یونین کونسل میں حلقے بنا کر کونسلر منتخب ہوں گے جو اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین چنیں گے۔ بہرحال اس کا انحصار حکومت پنجاب پر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر عمل کرے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو پا رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان الفاظ کی گولہ باری شروع ہو چکی جو کراچی کے حلقہ این اے 246کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے ہے یہ نشست ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے آبائی حلقہ کی ہے جو نبیل گبول کو دی گئی اور ان کے مستعفی ہونے سے خالی ہوئی ہے۔ اس وقت متحدہ قومی موومنٹ جس شدید دباؤ کا شکار ہے وہ اس سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، اس وقت ساری توجہ اس طرف مرکوز ہے کہ متحدہ بطور جماعت ٹارگٹ کلنگ اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتی ہے یا نہیں۔ صولت مرزا کے ویڈیو بیان اور رینجرز کے پاس زیر حراست اہم حضرات کے مخالفانہ بیانات نے بھی سنجیدہ صورتحال بتا رہی ہے اب صولت مرزا کی اہلیہ کے بیان کو عوامی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور متحدہ کی طرف سے تردیدی بیانات پر زور ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے خلاف بیانات میں روایتی تندی ہے۔حلقہ این اے 246کا یہ ضمنی انتخاب سٹیٹ کیس بنتا جا رہا ہے، امن و امان کے قیام اور زور زبردستی اور کہنے کے لئے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ اگر فوج نہیں بھی آتی تو ایک امر تو واضح ہے کہ رینجرز تو کراچی میں موجود اور آپریشنل ہیں۔ دوسری طرف متحدہ میں اگرچہ الطاف حسین کی قیادت مستحکم ہے جس کا ثبوت ان کی طرف سے ایک بار پھر مستعفی ہونے کے اعلان سے دیا گیا جو حسب سابق کارکنوں نے قبول نہیں کیا۔اس کے باوجود سب اچھا نہیں، رکن صوبائی اسمبلی فیصل سبزواری پر تنقید اور ان کی طرف سے استعفیٰ بھی ایک مظہر ہے اور صولت مرزا کی اہلیہ سے تازہ ترین انٹرویو کی تائید کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ کا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ایسی دراڑوں سے محفوظ رہتا ہے یا شگاف بڑھ جاتے ہیں، بار بار رابطہ کمیٹی میں تبدیلیاں بھی ایسے ہی اشارے دیتی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی بے سکون ہے کہ قائد آصف علی زرداری افہام و تفہیم کی سیاست کا علم ضرور اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اس کے مثبت اشارے ظاہر نہیں ہو پا رہے۔ خورشید شاہ کے اعلان کے باوجود یہ واضح ہو گیا کہ بلاول بھٹو 4اپریل کو بھی نہیں آ رہے وہ برسی کی تقریب لندن میں منعقد کریں گے اور دونوں بہنیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ آنے والا وقت کیا لائے گا یہ تو اسی دم معلوم ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات

مزید :

تجزیہ -