نوازمودی ملاقات،پاک بھارت شدید تناؤ میں ’’ اہم ترین بریک تھرو‘‘
پیرس سے خصوصی تجزیہ سہیل چوہدری
عالمی موسمیاتی کانفرنس کے حاشیہ پر گزشتہ روز وزیراعظم محمد نوازشریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مابین غیر رسمی ملاقات ہوئی جو جنوبی ایشیاء میں امن اور پاک بھارت تعلقات کے شدید تناؤ کے حوالے سے اہم ترین بریک تھرو سمجھی جارہی ہے ، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم گزشتہ روز عالمی موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کیلئے کانفرنس ہال سے باہر لاؤنج میں تقریبا ایک ہی وقت پہنچے ، وزیراعظم نوازشریف کا وہاں فرانس کے صدر نے استقبال کیا ،بعدازاں جب وہ کانفرنس ہال میں جانے کے لئے اس سے ملحقہ لاؤنج میں پہنچے تو وہاں بہت سے عالمی رہنماء موجود تھے جن سے وزریراعظم نوازشریف خیر سگالی کے جذبات کا تبادلہ کررہے تھے تو اس موقع پر یکا یک بھارتی وزیراعظم مودی جو پہلے سے لاؤنج میں موجود تھے خود آگے بڑھ کر وزیراعظم نوازشریف کے پاس آئے اوران سے مصافحہ کیا ، جو اباً وزیراعظم نوازشریف بھی ان سے گرمجوشی سے ملے ، دونوں رہنماؤں کے مابین یہ اس وقت اچانک ہوئی اور وزیراعظم کے وفد سمیت سینئر سفارتکاروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ملاقات ہوگی بالخصوص ایسے حالات میں جب پاک بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں درجنوں سول افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ بھارتی گولہ باری سے پاکستانی بارڈر پر بسنے والے لوگوں کے جان و مال کا نقصان معمول بن چکا ہے ، ایسے حالات میں جب بھارت اوفا معاہدے کو بھی ایفانہ کر سکا اور پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا دورہ بھارت بھی منسوخ ہوگیا ، ان حالات میں بالآخر بھارت پاکستان کے اصولی موقف کا دباؤ برداشت نہ کر سکا اور وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کے آگے لچک دکھانا پڑی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی وزیراعظم نوازشریف سے مصافحہ کے بعد انہیں ساتھ لے کر وہاں سائیڈ پر پڑے صوفہ پر بیٹھ گئے اور دونوں رہنماؤں کے مابین ون آن ون ملاقات چند منٹ جاری رہی ، اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی کمی کے حوالے سے اہم پیش رفت تصور کی جارہی ہے ، سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس ملاقات سے نہ صرف دونوں ملکوں میں کشیدگی کی لہر میں کمی واقع ہوگی اور پاک بھارت کے مابین امن مذاکرات کے دوبارہ آغازکے امکانات روشن ہوگئے ہیں ، تاہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف سے آگے بڑھ کر ملے سفارتی پہل عالمی رہنماؤں کو دکھانے کی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے امریکہ کے دورے بھی رنگ لائے ہیں اور بالخصوص خطے اور افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار سے عالمی برادری پہلوتہی نہیں کر سکتی ، اس بناء پر قرین ازقیاس ہے کہ مغربی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی جانب سے بھی بھارت پر پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے کا دباؤ ہوسکتا ہے ،ایسا ہے کہ نریندر مودی نے یہ سفارتی پہل ایک سوچے سمجھے طریقے سے کی ہے ، اور اس کے نتیجہ میں جنوبی ایشیاء میں امن کے لئے مذاکرات کے آغاز کا راستہ ہموار ہوتا نظر آرہاہے ، جبکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس غیر معمولی ملاقات کے بعد نوازشریف کی ایک دفعہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی موجودگی میں افغانی قیادت کے ساتھ سہہ فریقی مذاکرات ہوئے جس میں افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ مشترکہ تعاؤن کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا جبکہ سہہ فریقی ملاقات سے قبل افغان قیادت سے دو طرفہ ملاقات بھی ہوئی جس میں پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے اپنے بھر پر تعاؤن کی پیش کش ایسا لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے آگے بڑھنا بھی افغان صورتحال سے منسلک ہے تاہم وزیراعظم نوازشریف نے افغان قیادت کو ہر ممکن تعاؤن کی پیش کش ہے اور واضح کیا ہے کہ پاکستان کے خیال میں افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین بات چیت مثبت نتائج کا حامل ہوسکتا ہے پاکستان نے اس حوالے سے ماضی میں بھی سہولت کار کا کردار ادا کیا اور پاکستان اب بھی کردار ادا کرنے کے لئے تیار تاہم گیند افغان حکومت کی کورٹ میں ہے اس ضمن میں پاکستان سمجھتا ہے کہ حتمی فیصلہ افغان قیادت کو ہی کرنا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز ڈیوڈ کیمرن کی موجودگی میں افغان قیادت کے ساتھ مذاکرات اس کے غماز ی ہیں کہ اہل مغرب پاکستان کے کردار کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہیں۔