کیا نوازشریف مودی مصافحہ ’’ سیاسی موسم‘‘ بدل پائے گا ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
کیا نوازہفتے کے روز جب پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے بات چیت کرتے ہوئے بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیش کش کی تھی تو اس وقت تک یہ امکان نہیں تھا کہ دونوں رہنماؤں میں پیرس کی موسمیاتی کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر مصافحہ بھی ہوسکے گا یا نہیں کیونکہ نیو یارک کی امن سربراہ میٹنگ میں بس اتنا ہوا تھا کہ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر ہیلو ہائے کرلی گئی۔ مصافحے کی نوبت آئی نہ ملاقات کی۔ کانفرنس شروع ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ وزیراعظم نواز شریف نے مودی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا جواب میں مودی مسکرائے اور ہاتھ ہلایا۔ تھوڑے وقفے کے بعد دوبارہ مودی نے نواز شریف کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا جواب میں وہ مسکرائے اور سر کی جنبش کے ساتھ جواب دیا۔ مسکراہٹوں کے تبادلے، ہاتھ ہلانے اور سر کی جنبش کے ذریعے اظہار خیر سگالی اپنی جگہ تاہم دونوں رہنماؤں میں ستمبر کی اس کانفرنس میں ملاقات کی نوبت نہیں آئی تھی، حالانکہ دونوں کا قیام ایک ہی ہوٹل میں تھا، ایسے لگتا ہے کہ دونوں جانب سے اس امر کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہوٹل کی راہداری میں بھی چلتے چلاتے دونوں کا آمنا سامنا نہ ہونے پائے، ورنہ مصافحہ یا ممکنہ طور پر معانقہ تو کرنا ہی پڑ جاتا۔
اس سے پہلے دونوں رہنماؤں کی ملاقات اوفا (روس) میں جولائی کے مہینے میں ہوئی تھی جہاں شنگھائی کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر روس اور چین کے صدور کی کوششوں سے اس ملاقات کا اہتمام ہوا، ملاقات کے اختتام پر ایک اعلان بھی جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیر نئی دہلی میں ملاقات کریں گے، تاریخ بعد میں طے ہوئی لیکن سرتاج عزیز نئی دہلی روانہ ہونے والے تھے تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے یہ خبریں آگئیں کہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی، اب پیرس کی موسمیاتی کانفرنس میں دلوں کا موسم تو نہیں بدلا البتہ مصافحے اور ایک صوفے پر بیٹھنے کی حد تک موسم بدلا ہوا نظر آیا۔ مصافحے کے بعد دونوں رہنما ایک صوفے پر قریب قریب بیٹھ گئے، جو تصویر جاری ہوئی اس میں ایسے لگتا ہے مودی کوئی بات کہہ رہے ہیں اور وزیراعظم نواز شریف ہمہ تن گوش ہیں۔ نواز شریف نے ملاقات کے بعد کہا بات چیت اچھے انداز میں ہوئی، تاہم کیا بات ہوئی اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے اعلان کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات نہ تو طے تھی اور نہ ہی بظاہر امکان تھا، ایسے لگتا ہے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پس منظر میں کوئی کردار ادا کیا ہوگا جن سے ملاقات کے دوران نواز شریف نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا تھا، ویسے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے اندر انتہا پسند ہندوؤں نے پے درپے جو اقدامات کئے ہیں اور جن کو نہ تو اندرون ملک پسند کیا گیا اور نہ بیرون ملک۔ ان کی وجہ سے مودی حکومت سخت دباؤ میں اپنے آپ کو محسوس کر رہی ہے۔
جن لوگوں نے بھارت میں اودھم مچایا ہوا ہے وہ چونکہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی کے عسکری بازو شیوسینا کے کارکن اور رضاکار ہیں، اس لئے انہیں کھل کھیلنے کی آزادی ہے۔ حکومت اب تک ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکی جنہوں نے لوگوں کے منہ کالے کئے، گوشت کھانے کے محض شبے میں قتل کئے، فنکاروں کو دھمکیاں دیں، جنہوں نے ان کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کو پسند نہیں کیا، انہیں ملک چھوڑنے کے مشورے دئے گئے۔ شاہ رخ خان اور عامر خان کے خلاف مظاہرے کئے گئے، دلیپ کمار کو بھی ہدف تنقید و ملامت بنایا گیا۔ عامر خان کے بارے میں تو اطلاع ہے کہ وہ امریکہ جاچکے ہیں۔ ان حالات میں دنیا بھارت اور اس کی حکومت کے بارے میں منفی رائے قائم کرنے پر مجبور تھی، پھر اس دوران بھارتی ریاست بہار میں انتخابات ہوئے تو بی جے پی کو آئینہ دکھایا گیا۔ یہاں لالو پرشاد نے بڑا ڈرامائی کم بیک کیا ہے جن کی پارٹی لوک سبھا کے انتخابات میں ہار گئی تھی، اب انتخابی حکمت عملی تبدیل کرکے وزیراعلیٰ نتیش کمار، لالو پرشاد یادیو کی جماعتوں اور کانگرس نے ایک گرینڈ الائنس بنا کر الیکشن لڑا اور نریندر مودی کو زبردست شکست دی۔ مودی نے بذات خود ریاستی انتخابات کی بھرپور مہم چلائی تھی اور ریاست کے طول و عرض میں 30 جلسے کئے تھے اس کے باوجود بی جے پی ہار گئی۔ اسی طرح بھوپال کے ایک حلقے میں لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں بھی نریندر مودی کو شکست ہوگئی۔ ان تمام شکستوں نے لگتا ہے مودی کو دل برداشتہ کر دیا ہے اور وہ پندار کا صنم کدہ ویران کرکے وزیراعظم نواز شریف سے مصافحے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ خود چل کر گئے اور نواز شریف کی جانب ہاتھ بڑھایا۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں چونکہ کوئی تیسرا نہییں تھا اور نہ ہی کوئی اعلان جاری ہوا ہے اس لئے صرف قیاس ہی کیا جاسکتا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں کیا بات چیت ہوئی۔ ایسے مواقع پر محض رسمی جملوں کا تبادلہ ہی ممکن ہے، زیادہ سے زیادہ دونوں نے اپنے اپنے ملک کی جانب سے امن و امان کی ضرورت پر زور دیا ہوگا۔
ابھی یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس مصافحے اور مختصر سی ملاقات کے نتیجے میں تعلقات کی سرد مہری کی برف پگھلے گی یا باقاعدہ مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔ تاہم ایسی ملاقاتوں کو عمومی طور پر ’’خوش آئند‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ملاقات چند دن بعد ماضی کی ملاقاتوں کی طرح رفت گزشت ہو جائے یا پھر اس کے فالو آپ کے طور پر دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان ملاقات ہو، اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملاقات مفید رہی۔ بصورت دیگر اس سے کوئی خوش فہمی وابستہ نہیں کی جاسکتی۔