سانحہ شکار پور، پوری قومی مذہبی سیاسی قیادت کی بالغ نظری!
چوہدری خادم حسین
قابل تحسین ہیں وہ سب راہنما جنہوں نے صبر و تحمل اور ہوش کا دامن تھامے رکھا ہے اور ملک میں فرقہ وارانہ، فسادات کی مذموم کوششوں کو مکمل طور پر ناکام بنایا ہے اس سلسلے میں تمام دینی مسالک متفق ہیں کہ مدرسوں، سکولوں، مساجد اور امام بارگاہوں میں دہشت گردی ملک دشمنوں کی کارروائیاں ہیں اور یہ انسانیت کے ساتھ دین کے بھی دشمن ہیں۔ اس سلسلے میں فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کو زیادہ قابل قدر جاننا چاہئے جنہوں نے بلوچستان میں زائرین کی بسوں کے مسافروں کو چن چن کر مارنے کے عمل کو بھی برداشت کیا اب شکارپور میں بارود کے ذریعے موت کا کھیل کھیلا گیا 53 افراد لقمہ اجل بنے اور بے شمار زخمی ہیں یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا۔ بہر حال طریق کار جو بھی ہے وہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر کے فسادات کرانے کی سازش ہے اور اس میں ’’را‘‘ کا ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلا شبہ یہ دہشت گرد نام سے مسلمان ہو لیکن مقاصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ملک کے اندر فساد کرا کے خانہ جنگی کی صورت پیدا کی جائے۔ یہ ’’را‘‘ ہی کے لئے اطمینان اور خوشی کا باعث ہو سکتا ہے۔ بہر حال یہ ایک اچھی بات ہے کہ ملک کے تمام سیاسی اور مذہبی طبقات نے اس کی مذمت کی۔ سندھ حکومت نے سوگ کا اعلان کیا۔ خود شیعہ حضرات کی تنظیموں نے احتجاجی دھرنے دیئے ا ور تین روز سوگ منانے کا اعلان کیا۔ اس حادثے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد بھی تاک میں رہتے ہیں اور وہ ملکی حالات اور سیاسی چپقلش کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ سندھ میں متحدہ اور پیپلزپارٹی میں محاذ آرائی ہوئی کراچی میں متحدہ کے کارکن سہیل کے قتل پر سخت کشیدگی کا ماحول بنا اور اسی کا فائدہ اٹھا کر شکار پور میں دھماکہ کر دیا گیا۔ بہتر ہوا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف وقت ضائع کئے بغیر کراچی پہنچ گئے اور انہوں نے اچھے انداز سے فریقین کے درمیان معاملہ طے کرایا متحدہ کے تحفظات سنے دور کرنے کا یقین دلایا، سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کا بھی موقف سامنے رکھا اور دونوں سے اپیل کی کہ مل کر امن دشمنوں کا خاتمہ کریں۔ یہ اچھی کوشش ہے جو ہر مسئلہ میں کی جانا چاہئے۔ سیاست بھی کیسا کھیل ہے۔ جس میں حالات کے تحت دوستیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ سینٹ کی نصف نشستوں کے انتخابات سر پر آ گئے ہیں عمران خان آج تک دہری پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں، قومی اسمبلی اور ماسوا خیبرپختون خوا سندھ اور پنجاب اسمبلی کے اراکین سے استعفے دلائے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت کی سربراہی حاصل ہے اسے نہیں چھوڑا اور اب اسی تضاد کا مظاہرہ سینٹ الیکشن میں بھی کر رہے ہیں۔ پنجاب والوں اور شاہ محمود قریشی کی خواہش کے باوجود قومی اسمبلی والوں کو بھی اسمبلیوں میں جانے سے روک رکھا ہے لیکن خیبر پختونخوا سے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر سینٹ کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ تجزیہ کاروں اور حساب دانوں کا تخمینہ ہے کہ کے۔ پی۔ کے اسمبلی پوزیشن سے حکمران اتحاد کو سات اور حزب اختلاف کو پانچ نشستیں مل سکتی ہیں شرط یہ ہے کہ ہر دو میں اتفاق و اتحاد ہو اور نشستوں کی تقسیم پر اختلاف نہ ہو۔ ادھر پنجاب میں تحریک انصاف کے باہر ہونے سے حزب اختلاف کی حالت پتلی ہے، اب جو رابطے ہوئے ان کے ذریعے مسلم لیگ (ق) نے اپنی سیاسی ساکھ اور چودھری شجاعت حسین کو پھر سے سینٹر بنوانے کے لئے بھاگ دوڑ کی۔ اور پیپلزپارٹی سے سمجھوتے کی اطلاعات ہیں جن کے مطابق پنجاب سے پیپلزپارٹی کی حمایت کے بدلے دوسری اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ق) کی حمایت دی جائے گی یہ خاصا مشکل ہدف ہے جسے پانے کے لئے چوہدری پرویز الٰہی سر گرم ہیں۔ اگرچہ سیاست سینٹ کے گرد گھوم رہی ہے لیکن عمران خان اور شیخ رشید اپنا مشن نہیں بھولے وہ اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کھلے راز کا انکشاف کیا کہ چین کے ہوتے ہوئے بھارت کا سلامتی کونسل میں مستقل رکن بننا ممکن نہیں۔ چین نے تو کھلے بندوں اس کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ بہر حال بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج چین جا رہی ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ چین کی راہ ہموار کریں گی ان کی یاترا چین کے صدر کی پاکستان آمد سے پہلے ہو گی۔ ڈپلومیسی کے فرنٹ پر بھی یہ سب ہو رہا ہے۔ بہر حال بھارت کو ابھی تک تو جنرل اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل نہیں ہو سکی، سلامتی کونسل اور ویٹو تو بعد میں ہے ابھی تو جنرل اسمبلی نے سلامتی کونسل کی نشستوں میں اضافے کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہاں پاکستان کی ڈپلومیسی کا امتحان ہے۔