داعش کا وجود، معذرت خواہی کیوں، حقیقت کا سامنا ضروری ہے

داعش کا وجود، معذرت خواہی کیوں، حقیقت کا سامنا ضروری ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: چودھری خادم حسین

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان غلط فہمی یا تشریح میں اختلاف اور سینٹ کی کارروائی کا ذکر تو مقصود ہے تاہم پہلے پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے گزارش بہتر عمل ہوگا کہ سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے لاہور سے ایف بی آر کے سپرنٹنڈنٹ مہر حامد کی گرفتاری اور اس انکشاف کے بعد کہ ان کی اہلیہ کے ابوبکر البغدادی سے رابطے تھے اور وہ اب شام جا چکی ہیں جبکہ انہوں نے کئی نوجوانوں کو بھی تربیت کے لئے بھیجا ، اس سلسلے میں گرفتار افسر سے تفتیش ہو رہی ہے، ہمارے لئے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ اس قومی اور عالمی مصیبت کے حوالے سے بھی سیاست شروع ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے مولابخش نے اپنا غصہ نکالا اور داعش کو مثال بنا کر پنجاب میں رینجرز کی کارروائی کا مطالبہ دہرا دیا، یہ قومی المیہ ہے کہ کراچی میں رینجرز کی موجودگی اور کارروائی پر اتفاق رائے ہوتے ہوئے بھی اختیارات کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وفاقی حکومت نے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو نظر انداز کرکے از خود نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا یوں جب پنجاب سے گرفتاریوں کی خبریں آئیں تو قدرتی طور پر سندھ حکومت کو بات کرنے کا موقع مل گیا اور یہ اعتراض بھی سامنے آ گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ سندھ اور وفاق کے اس تعلق کے حوالے سے بات کی جائے داعش کی بات کرلی اگر داعش کے لئے بعض سہولت کار پنجاب سے پکڑے گئے تو اس میں اس حد تک معذرت کے رویے کی کیا ضرورت ہے کہ سیکرٹری خارجہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں اور اگر کوئی متاثرین ہیں تو ان کو چھوڑا نہیں جائے گا حالانکہ ’’نظریہ خلافت‘‘ کا پرچار تو یہاں بڑے منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور آج بھی اس تنظیم کی طرف سے ای میل کے ذریعے موقف پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم فوری طور پر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر یہ تو نہیں کہتے کہ حزب التحریر اور داعش کے درمیان کوئی گہرا تعلق ہے یا پھر ابوبکر ابغدادی ہی وہ خلیفہ ہیں جن کے لئے یہ تنظیم بہت منظم طریقے سے تحریک چلاتی رہی اور چلا رہی ہے، اس تنظیم کے ایک اہم راہنما اور ان کے ساتھی حکومت کی تحویل میں ہیں۔ حزب التحریر نظام خلافت کی قائل ہے اور اس کے حق میں تحریری مہم چلا رہی ہے، ایک دور میں اس تنظیم کے راہنما اور کارکن میڈیاسے رابطے کرکے ان کو کسی اطلاع کے بغیر بلاتے اور یہ نشست کسی ہوٹل یا دوردراز کے ریسٹورنٹ میں ہو جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک دعوت پر ہم نے بھی ان حضرات کی گفتگو سننے کے لئے ایک ملاقات میں شرکت کی اس کے لئے پراسرار طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہمیں ہوٹل سے ذرا فاصلے پر بلایا گیا جہاں سے تنظیم کے ایک کارکن متعلقہ ہوٹل تک لے گئے، وہاں جو مکالمہ ہوا وہ یہی تھا کہ جو راہنما آئے انہوں نے خلافت کے نظام کی تبلیغ کی اور بہت دلائل دیئے لیکن وہ ہمارے استفسار کا جواب نہ دے سکے یا نہ دیا کہ یہ خلافت آئے گی کیسے اور خلیفہ کون ہے جس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے حکومت نے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔ ان حالات میں یہ بھی قرین قیاس ہے کہ یہی تنظیم اب داعش کی سہولت کار ہو یا پہلے سے ہی اس مقصد کے لئے کام کر رہی ہو کہ جب بھی خلافت کی تنظیم کا اعلان ہوگا یہ اس سے منسلک ہوگی۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے اور ہمارے خیال میں ایسا ہوا بھی ہوگا کہ حساس ادارے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے یہ کڑیاں ملائی جا سکتی ہیں یا پھر اس صورت کو رد کیا جا سکتا ہے کہ حزب التحریر اور داعش میں کوئی تعلق ہے۔ حکمرانوں اور اداروں کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ ہمارے یقین کے مطابق ہمارے ادارے ضرور اس پہلو پر غور کر رہے ہوں گے۔ یہ حزب التحریر پاکستان میں کالعدم ہے لیکن یورپ میں اس پر کوئی پابندی نہیں۔
اب بات ہو جائے سندھ اور وفاق کی تو ہم نے انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ پیپلزپارٹی سینٹ میں حکومت کے لئے مشکل پیدا کرے گی اور قومی اسمبلی میں ٹف ٹائم دے گی یہ دونوں عمل ہو چکے۔ سینٹ میں تو ایک ہی وار میں پیپلزپارٹی نے چکرا کر رکھ دیا ہے اور پی آئی اے کو لمیٹڈ کمپنی بنانے والا صدارتی آرڈیننس مسترد کر دیا اس پر وزراء بھنا رہے ہیں، اسحاق ڈار کہتے ہیں یہ اچھا نہیں ہوا تو وہ بھی فرمائیں سندھ حکومت کے تحفظات کے باوجود مذاکرات کئے بغیر رینجرز اختیارات از خود بحال کر دینا کون سا اچھا اقدام تھا، اگر وزیراعظم نے سندھ حکومت کے وفد کو حاضر کرکے بات چیت کی تو یہ چودھری نثار کی تفصیلی پریس کانفرنس سے پہلے بھی ممکن تھا اور ہمیں یقین ہے اور ہم نے لکھا بھی تھا کہ پیپلزپارٹی بعض یقین دہانیوں کے بعد مان جائے گی۔ اب بھی تو صبر کر ہی لیا گیا تاہم شیشے میں بال آ گیا اور تعلقات متاثر ہوئے ہیں، ان کی بحالی کراچی آپریشن ہی نہیں ملکی امور کے حوالے سے بھی ضروری ہے کہ اب داعش کی موجودگی پر بحث شروع ہو گئی ہے، پیپلزپارٹی بہرحال وجود رکھتی ہے۔ گئی گزری حالت میں بھی چاروں صوبوں میں موجود ہے۔ سندھ میں برسراقتدار ہے اور بلدیاتی انتخابات میں بھی پھر سے وجود کو ثابت کر دیا ہے اس لئے بہتر عمل ڈائیلاگ ہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا معقولیت بہرحال اپنا اثر رکھتی ہے۔ وسیع قومی اتفاق رائے کے لئے سب سے بات لازم ہے، عمل کریں۔
حقیقت کا سامنا

مزید :

تجزیہ -