شرجیل میمن پر پھولوں کی بارش اور نیب کیخلاف لفظوں کی گولہ باری

شرجیل میمن پر پھولوں کی بارش اور نیب کیخلاف لفظوں کی گولہ باری
شرجیل میمن پر پھولوں کی بارش اور نیب کیخلاف لفظوں کی گولہ باری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

شرجیل میمن بھی کیا قسمت لے کر سیاست میں آئے ہیں، پونے چھ ارب روپے کی کرپشن کا ان پر الزام ہے، سندھ کی وزارتِ اطلاعات کے مزے لوٹنے کے بعد بیرون ملک جا بیٹھے تھے، جب انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا تو اگرچہ اسلام آباد میں گرفتار ہوگئے لیکن جلد ہی ضمانت پر رہائی مل گئی، اس دوران وہ نیب کے کیسوں میں پیش ہوتے رہے، سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہوئی تو وہ کافی وقت کے لئے عدالت کے اندر ہی رہے تاکہ نیب گرفتار نہ کرسکے جس نے عدالتی احاطے کے باہر گرفتاری کے انتظامات کر رکھے تھے اور رینجرز کا تعاون بھی طلب کر رکھا تھا۔ شرجیل میمن گرفتار ہوگئے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی وجہ سے انہیں ہر قسم کی سہولت حاصل ہے چند روز پہلے گرفتاری کے بعد بدھ کو وہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں گرجتے برستے رہے، کیونکہ اپنی حکومت کی وجہ سے انہیں یہ سہولت حاصل ہوگئی کہ سپیکر نے پروڈکشن آرڈر پر انہیں اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی، ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ارکان اسمبلی کو دوران حراست اجلاس میں شرکت کی اجازت دی جاتی رہی ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت یا سپیکر آپ کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو حال مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح ہوتا ہے جنہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایک خط بھی لہرا دیا تھا جو ان کا جرم بن گیا، حکومت جنرل پرویز مشرف کی تھی انہوں نے جاوید ہاشمی کو حوالہ زنداں کردیا، ان کی گرفتاری کے بعد جب بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، سپیکر سے درخواست کی گئی کہ وہ جاوید ہاشمی کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں لیکن انہوں نے اپنی پوری سپیکر شپ کے دوران جاوید ہاشمی کو اسمبلی کے ایوان میں آنے کی اجازت نہ دی، متعدد بار ایسی درخواستیں کی گئیں جو انہوں نے خلافِ ضابطہ قرار دے کر مسترد کردیں۔ یہاں تک کہ چودھری امیر حسین کی سپیکر شپ غفرلہ، ہوگئی، 2008ء کے الیکشن میں وہ فردوس عاشق اعوان سے ہار گئے تو ایک مجلس میں ہماری ان سے ملاقات ہوگئی، باتوں باتوں میں جاوید ہاشمی کا ذکر آگیا تو انہوں نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ اگر رولز اجازت دیتے تو وہ ضرور جاوید ہاشمی کو اجلاس میں شرکت کی اجازت دیتے لیکن کیا کرتا قواعد ہی راستے میں حائل تھے اور سپیکر کو قواعد کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ آج جب ہم نے سندھ اسمبلی میں شرجیل میمن کو خطاب کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر دیکھا تو ہمیں خوشی ہوئی کہ چلئے جاوید ہاشمی تو اتنے خوش قسمت نہیں کہ ایک خط لہرانے پر پکڑے گئے اور پھر ایوان کی شکل دیکھنے کو ترس گئے تھے شرجیل میمن کو یہ سہولت حاصل ہوگئی حالانکہ ان پر پونے چھ ارب کی کرپشن کا الزام ہے، جاوید ہاشمی نے بھی کوئی ایسی کمائی کی ہوتی تو شاید انہیں بھی ایوان میں جانے کی اجازت مل جاتی۔
سندھ اسمبلی میں نیب کا دہرا معیار بھی زیر بحث آیا، خود وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اس موضوع پر اظہار خیال فرمایا، ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی اور شرجیل میمن کو عدالتوں پر پورا اعتماد ہے، عدالتیں مقدس ہیں، ہم ان کے سامنے پیش ہوئے، شرجیل میمن عدالتوں سے بھاگے نہیں بلکہ انہوں نے عدالتوں کا سامنا کیا۔ نیب کو میرے خلاف بھی کیس بنانے ہیں تو بنا لے، ہم کیسز سے ڈرنے والے نہیں، ہم وہ نہیں کہ دو سال عدالت میں نہ جائیں اور بعد میں معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا ’’کیٹرنگ کے ٹھیکوں کی انکوائری میں نے روکی ہوئی تھی لیکن اب وہ میں کراؤں گا‘‘ اور بتاؤں گا کس نے کیا کیا ٹھیکے لئے، اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہوگیا تو ٹھیکوں کا معاملہ بھی سامنے آہی جائیگا۔ لیکن اس وقت دلچسپ صورتِ حال یوں بن گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں نیب زیر عتاب ہے تو سندھ اسمبلی میں بھی نکتہ چینی کا ہدف ہے جن کو پکڑا جائیگا وہ نیب پر پھولوں کی پتیاں تو نچھاور نہیں کریں گے یہ منظر تو اس وقت دیکھنے کو ملا جب شرجیل میمن کو جیل سے سندھ اسمبلی لایا گیا، ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور پھول برسائے گئے، بس کمی یہ رہ گئی کہ اس موقع پر پس منظر میں یہ ریکارڈ بجایا جاسکتا تھا ’’بہارو پھول برساؤ، میرا محبوب آیا ہے‘‘ لیکن نہیں بجایا گیا۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے، ان کا نام قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پیش کیا تھا جو وزیراعظم نے قبول کرلیا، آج جس طرح نیب سندھ اسمبلی میں ہدفِ تنقید بنا رہا تھا لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی براہ راست نشانے پر آجائیں گے۔ کیونکہ یہی کچھ ہم نے جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کے ساتھ ہوتے دیکھا ہے، انہیں جب چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو ہر جانب مسرت کے شادیانے بجائے گئے لیکن جب الیکشن ہوگئے تو ہر ہارنے والا ان کا دشمن بن گیا، حالانکہ الیکشن کمیشن کا کام شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانا تھا کسی کو جتوانا یا ہرانا نہیں تھا۔ بہر حال وہ ہدف بنے رہے یہاں تک کہ اس بے فیض عہدے پر لات مار گئے، الیکشن میں ہارنے والوں میں سے ایک جماعت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنی شکست کا ذمے دار ٹھہرایا تو ایک دوسری جماعت نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر ملبہ ڈال دیا۔ ابھی تو سندھ اسمبلی میں نیب کے خلاف قرارداد آئی ہے کیا معلوم چند دنوں بعد نیب کے وہ چیئرمین بھی ہدفِ تنقید بننے لگیں جن کا نام خود پیپلز پارٹی نے تجویز کیا۔
لفظوں کی گولہ باری

مزید :

تجزیہ -