سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے

سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل ...
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے
سرتاج عزیز ایک ہاتھ میں دوستی کا پیغام ، دوسرے میں امن کی کنجی لیکر آج کا بل پہنچیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد سے تجزیہ سہیل چوہدری
  وزیر اعظم محمد نوازشریف نے گزشتہ روز واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستانی سرحدوں پر بہتا خون عالمی امن کیلئے بھی خطرہ بن سکتاہے ، ان کا یہ بیان کسی سیاسی ضرورت کانتیجہ نہیں بلکہ زمینی حقائق کے عین مطابق ہے ، پاکستان دہشتگردی کے عالمی خطرہ کے خلاف درون خانہ ایک عظیم معرکہ سے دوچار ہے ، بلکہ ایک طرح سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ خطے اور پورے گلوب کے امن کی خاطر خالصتاًاپنے وسائل سے بر سرپیکار ہے ، تو ایسے میں مودی سرکاری نے نہ صر ف پاکستان کے مشرقی بارڈر پر خون کی ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہو اہے تو دوسری جانب یہی سرکارافغانستان میں قیام امن کی پاکستانی کوششوں پر پانی پھیرنے میں کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کررہی ،پاکستان کی ایک لاکھ نوے ہزار فوج ضر ب عضب میں بر سر پیکار ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دباؤ ڈالا جارہاہے ، پاکستان نے داخلی طورپر ضرب عضب کے ذریعے طالبان کے تمام دھڑوں کے خلاف بلا امتیاز فوجی آپریشن جاری رکھتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے تمام انفراسٹرکچر کو تہہ وبالا کرنے کے ساتھ ساتھ خطے اور افغانستان میں پائیدارقیام امن کیلئے اپنا بھرپور مخلصانہ کردار ادا کرتے ہوئے کابل حکومت اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا، درحقیقت پاکستان اس بات سے بخوبی آشنا ہے کہ افغانستان میں امن سے ہی پاکستان میں دائمی امن کا قیام ممکن ہوسکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین ایک سہولت کار کا کردارنبھاتے ہوئے دونوں متحارب فریقین یعنی آگ اور پانی کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کا نا قابل یقین کارنامہ انجام دیا ، درحقیقت 7جولائی کو مری بھوربن میں ہونے والے مذاکرقت ایک تاریخی بریک تھرو تھی کیونکہ اس کی کم ازکم افادیت یہ تھی کہ ایک دوسرے کو مٹا دینے کی 15سالہ طویل جنگ میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیا ، وگر نہ طالبان کے تناظرمیں دیکھیں تو وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں ایسا ف کی ڈیڑھ دو لاکھ فوج شکست سے دوچار نہیں کر سکی تو اب باقی ماندہ دس ہزار غیر ملکی افواج کی تو اہمیت نہیں اور وہ جلد ہی کابل فتح کر لیں گے ، دوسری جانب کابل حکومت بھی طالبان کا مکمل خاتمہ چاہتی تھی ، دراصل طالبان نے کابل حکومت سے مذاکرات کی میز پر آنے کے حوالے سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا اس کا سہرا یقیناًپاکستان کے سر ہے تاہم کابل میں پاکستان مخالف لابی کو یہ کامیابی ہضم نہ ہوئی اور ایک سازش کے تحت عین اس موقع پر جب افغان طالبان اور کابل کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور ہو اچاہتا تھا حتیٰ کہ افغان طالبان کے 8کلیدی رہنماء اسلا م آباد پہنچ چکے تھے تو ملا محمد عمر کی ہلاکت کی خبر ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت چھوڑ ی گئی ، اگرچہ پاکستان نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی ،لیکن لگتا ہے کہ یہ خبر لیک کرنے والوں کے پاس اطلاع پہلے سے تھی اور انہیں اسے طشت ازبام کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا ، ایسا لگتا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر رکھنے والوں کو اندازہ تھاکہ اسے لیک کرنے سے نہ صرف مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑ جائے گا بلکہ طالبان کے دھڑوں میں بھی پھوٹ پڑ جائیگی او ر وہ اس پھوٹ کا فائدہ اٹھا کر طالبان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے ، تاہم ایک سازش کے تحت ایک غلط اندازے کو بنیاد بناکر پاکستان کی بات چیت کے ذریعے قیام امن کی مخلصانہ کوشش پر پانی پھیر دیا گیا ، اس سے پاکستان کو عارضی طورپر صدمہ ضرور ہو الیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے مختلف دھڑے پہلے سے بھی زیادہ متحد ہوکر سامنے ابھرے جبکہ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات معطل ہونے سے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے مستقبل کو تاریک کرنے کی کوشش کی گئی اب کابل حکومت پر بھی سوال اٹھتے ہیں کہ آیا اس حکومتی سیٹ اپ کے بعض حلقے شائد قیام امن کے خواہاں ہی نہیں کیونکہ ’’وار اکانومی‘‘سے بھی بعض لوگ مستفید ہورہے ہوتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ دہلی اور کابل کے مابین انٹیلی جنس گٹھ جوڑ میں را کا یہ کمال ہے کہ کابل دہلی کا کھیل کھیلنے پر مجبور نظر آتاہے جس کے تحت پاکستان کو مشرقی سرحد کے ساتھ مغربی سرحد پر بھی دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، لیکن اس سارے کھیل میں اصل نقصان افغانستان کا اپنا ہورہاہے ، اب کابل اور افغانوں کو خود اپنے مفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ افغانستان میں پائیدار امن کیلئے تمام دھڑوں میں مذاکرات کے ذریعے ایک مفاہمتی عمل کو نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں یا پھر دہلی کی جانب سے دکھائے جانیوالے سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے ، اس حوالے سے آج کا دن افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم ہے کیونکہ مشیر خارجہ پاکستان سرتاج عزیز افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے عزم کے ساتھ ساتھ اپنی تجاویز کی شکل میں امن کی کنجی لے کر کابل پہنچ رہے ہیں ، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کی میزبانی میں امن مذاکرات کی معطلی کے بعد سے اب تک کابل کی جانب سے مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان پر جس طرح کی بھی الزام تراشی کی گئی پاکستان نے اس کا جواب نہیں دیا یعنی ادلے کا بدلہ نہیں کیا اور کسی بلیم گیم کا حصہ نہیں بنا ، پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی سازش کے نتیجہ میں جذبات کی رو میں بہہ کر ردعمل دینے کے بجائے صبر کا مظاہرہ کرے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کابل واقعات کے محرکات کا ادراک کرنے کے قابل ہوسکے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ مذاکراتی عمل کے تعطل کے ساتھ ہی جہاں طالبان میں پھوٹ پڑنے کی خبریں چلنے کے ساتھ ساتھ کابل میں دہشت گردی کے واقعات میں یک لخت اضافہ یقیناًپاکستان کے خلاف ایک فضا بنانے کی سازش کا حصہ معلوم ہوتاہے ، تاہم کابل کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان اور خطے میں قیام امن کے لئے سر تاج عزیز کی جانب سے آج بڑھائے جانے والے دوستی کے ہاتھ کو تھام لے اس قیمتی موقع کو ضائع نہ کرے وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطا بق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سر براہی میں آج کابل پہنچنے والا وفد افغان حکومت سے خطے کے وسیع تر مفاد میں بلیم گیم ختم کرکے اعتماد کی فضا بہتر بنانے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ تمام افغان دھڑوں میں بات چیت کے ذریعے ٹھوس اور پائیدار امن کے قیام کی تجویز دینگے ، وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان کا بل پر کوئی حل نہیں ٹھوسنا چاہتا صرف اپنے تجزیوں اور تجربات پر مبنی ایک مخلصانہ تجویز دے گا ، کیونکہ افغانستان میں قیام امن کیلئے حتمی راستے کا انتخاب افغانوں نے خود ہی کرنا ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طاقت اور جنگ کے ذریعے 15سال میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا ،ملامحمد عمر کی وفات کی خبر سے کابل نے فیصلہ میں جو غلطی کی اسے اب نہ دہرایا جائے ، یہا ں یہ بات بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر خدا نخواستہ کابل کی حالیہ خواہش کے مطابق طالبان کے دھڑوں میں اختلافات پیدا بھی ہوگئے تو اس انتشار کا نتیجہ داعش کی مضبوطی ہوگا، طالبان کے منتشرہ گروہ مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی صورت میں کابل کے آگے سرنڈر کرنے کے بجائے شائد داعش کو جوائن کرنے کو ترجیح دیں ۔ اگر کابل حکومت نے پاکستان کی مخلصانہ پیشکش اور تجاویز پر مثبت ردعمل کا اظہار نہ کیا تو پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے رویے اور پالیسی پر نظرثانی کرئے گا پاکستان کے پاس تمام آپشن اوپن ہیں اس حوالے سے موئثرپاک افغان بارڈر مینجمنٹ اور دیگر بہت سارے اقدامات زیر غور ہیں۔

مزید :

تجزیہ -