سینٹ، آج فیصلہ، ہارس ٹریڈنگ کا بھی علم ہو جائے گا

سینٹ، آج فیصلہ، ہارس ٹریڈنگ کا بھی علم ہو جائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجز یہ چودھری خادم حسین

آج سینٹ کی آدھی نشستوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔سندھ سے 4امیدوار بلا مقابلہ ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں48پر آج انتخاب ہوگا۔چاروں صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور فاٹا والے اپنے اپنے کوٹہ سے سینٹرمنتخب کریں گے۔ یہ سلسلہ ہر تین سال بعد ہوتا ہے کہ سینٹ نمائندگی کے طریق کار کے مطابق ہر سینٹرچھ سال کے لئے منتخب ہوتا ہے۔ تاہم جب پہلا انتخاب ہوتا ہے تو قرعہ اندازی کے ذریعے آدھے اراکین کے نام تین اور، باقی نصف کے چھ سال کر دیئے جاتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ سینٹ کے موجود رہنے تک چلتاہے کہ ہر تین سال بعد آدھے اراکین ریٹائر ہو جاتے اور ان کی جگہ انتخاب میں پھر چھ سال کے لئے اراکین چنے جاتے ہیں، آج بھی آدھے حصے کا انتخاب مکمل ہو گا اور یہ سب چھ سال رہیں گے جبکہ جو باقی نصف ہیں وہ اب تین سال بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔
انتخابات اسمبلیوں کے ہوں تو دھاندلی، وزیر اعظم، وزیر اعظم کا چناؤ اور حکومت سازی کا مرحلہ آئے تو ہارس ٹریڈنگ کا الزام سامنے آتا ہے۔ ماضی میں یہ سب ہوتا رہا ہے اس پر اعتراض بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے اتنا شور مچا اور احتجاج شروع ہو گیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور اس کاسہرا بھی محترم عمران خان کے سر ہے جو گزشتہ روز تک بھی احتجاج کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے تک کی دھمکی دے دی۔حالانکہ یہ ان کا اختیار نہیں ۔وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑنے کے لئے گورنر کو سفارش کر سکتا ہے۔
جوڑ توڑ ہر انتخاب کا عمل اور خاصہ ہے اس مرتبہ بھی ہوا، تاہم عمران خاں نے شو آف ہینڈ سے انتخابی عمل کا مطالبہ کر دیا جس پر خود وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی صاد کیا اور اس کے لئے ضروری آئینی ترمیم کی بھی کوشش کر ڈالی لیکن پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن نے ہارس ٹریڈنگ کی مذمت اور مخالفت کرنے کے باوجود ترمیم کی کوشش ناکام بنا دی۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ صرف سینٹ کے لئے ایک ترمیم نہیں بلکہ پورے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں، پارلیمینٹ کی کمیٹی کو یہ کام کرنا چاہئے اور مکمل اصلاحاتی پیکج لا کر پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کرنا چاہئے۔ اب یہاں ایک مشکل ہے وہ یہ کہ عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا کے سوا باقی اسمبلیوں سے استعفے دے رکھے ہیں۔ جو تا حال منظور نہیں ہوئے کہ برسر اقتدار طبقات کی مصلحت ہے کہ منظور نہ ہوں۔ تحریک انصاف والے بھی سنجیدہ نہیں کہ وہ استعفوں کی تصدیق کے لئے سپیکر چیمبر میں اکیلے اکیلے نہیں جاتے۔ اس سلسلے میں آئین بھی پامال ہو رہا ہے جس کے مطابق چالیس دن اجلاس سے غیر حاضر رہنے والا رکن اسمبلی اس استحقاق سے محروم ہو جاتا ہے، ایسا ہو چکا لیکن ایوان میں تحریک پیش کر کے رکنیت ختم نہیں کرائی جاتی، تحریک انصاف کا تضاد یہ ہے کہ کسی اور اسمبلی میں جاتے نہیں اور خیبر پختون خوا چھوڑتے نہیں کہ اقتدار ان کے پاس ہے۔ اب اس اسمبلی کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
آج جب سینٹ کے انتخابات مکمل ہوں گے تو اس میں بعض سر پرائز ضرور پیش آئیں گے۔ عمران خان کی دھمکی اور کوشش کے علاوہ اراکین کی یقین دہانی کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہیں اور خدشہ ہے کہ باغی کام دکھا سکتے ہیں، اسی لئے تو انہوں نے کہا پتہ چل جائے گا کس نے ووٹ نہیں دیا۔ بہر حال قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی مضبوط تر پوزیشن کے باوجود بقول ذوالفقار کھوسہ پنجاب اسمبلی میں باغی ہیں۔ بہر حال آج شام کے بعد یہ راز بھی کھل جائے گا۔
ایک بات سینٹ کے انتخاب کے بارے میں ہے جس کا ذکر نہیں کیا گیا وہ یہ کہ یہ انتخاب متناسب نمائندگی کے طریق کار پر ہوتا ہے۔ ہر ووٹر تین ترجیحات استعمال کرتا ہے۔ پہلی ترجیح دوسری اور تیسری پر مختلف امیدواروں کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس لئے گتنی کا عمل بھی پیچیدہ ہوتا ہے۔ سینٹر کامل علی آغا پہلی نہیں دوسری ترجیح کی بنا پر جیتے تھے۔ اس لئے یہ گنتی بھی دلچسپ ہو گی۔ رپورٹ کرنے والوں کو دھیان رکھنا ہوگا۔
عمران خان نے اپنی دھمکی اور ملک میں پھر بڑی گڑ بڑ کی پیشگوئی میں توسیع کر دی پہلے وہ کہتے تھے مئی سے پہلے بہت بڑا طوفان آنے والا ہے اب انہوں نے مئی کو و اگست میں تبدیل کر دیا شاید آج رات تک یہ بھی بدل جائے۔
دوسری طرف بھارت کے سیکریٹری خارجہ جے شنکر دو روزہ دورے اور مذاکرات کے بعد اسلام آباد سے افغانستان چلے گئے۔ اب تک بہت کچھ چھپ چکا ہم نے عرض کیا تھا کہ فریقین اپنا اپنا موقف ہی دہرائیں گے اور ایسا ہی ہوا ہے۔ بہر حال مثبت بات یہی کہی جا سکتی ہے کہ مذاکرات جاری رکھنے، ماحول بہتر بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔ شکوے دونوں طرف سے ہوئے۔ بات ہوتی رہی تو شاید خطے میں کوئی چین آ جائے۔ کنٹرول لائن کی بات ہوئی حالات معمول پر آئیں گے تو ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نظر آئے گا فی الحال یہی غنیمت کہ بات چیت کا عمل پھر سے شروع ہوا۔

مزید :

تجزیہ -