،چار ملکی رابطہ گروپ کے آج ہونے والے اجلاس سے مثبت امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کو ممکن بنانے کے لئے چار ملکی رابطہ گروپ کا تیسرا اجلاس آج ہو رہا ہے جس میں پاکستان کی جانب سے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری کی قیادت میں وفد شریک ہوگا، کلیدی خطاب مشیر خارجہ سرتاج عزیز کریں گے۔ رابطہ گروپ کے اجلاس میں امریکہ، چین اور افغانستان کے نمائندے شریک ہوں گے۔ اس رابطہ گروپ کا مقصد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے اس ٹوٹے ہوئے سلسلے کو بحال کرانا ہے، جو گزشتہ برس اس وقت جاری نہ رہ سکا تھا، جب ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آگئی تھی، اگرچہ ان کا انتقال دو برس پہلے ہوچکا تھا لیکن انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور نہ ہوسکا جبکہ ایک دور اسلام آباد میں ہوچکا تھا اور دوسرا دور بھی جلد متوقع تھا، طالبان گروپوں کو ملاعمر کے انتقال کے بعد اپنا نیا امیر بھی منتخب کرنا تھا اور جانشینی کے مسئلے پر اختلاف بھی سامنے آرہے تھے، چنانچہ فوری طور پر مذاکرات کا دوسرا دور ممکن نہ تھا۔ اس دوران اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں افغان صدر اشرف غنی نے شرکت کی، جس میں طے کیا گیا تھا کہ افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے چار ملکی رابطہ گروپ تشکیل دیا جائے جس کے اب تک دو اجلاس ہوچکے ہیں اور تیسرا اجلاس آج ہونے والا ہے۔
افغان طالبان میں اس وقت جو دھڑے ہیں ان میں مذاکرات کے حامی اور مخالف موجود ہیں۔ رابطہ گروپ کی کوشش ہے کہ جو دھڑے مذاکرات شروع کرنے کے لئے آمادہ ہیں، ان کو جلد از جلد مذاکراتی میز پر بٹھا دیا جائے۔ افغان طالبان کے دھڑوں میں اختلافات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ عمل پیچیدہ تر ہوگیا ہے ویسے بھی جن مذاکرات میں افغان شریک ہوں۔ وہ فی نفسہ بہت پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ فریقین ایک ایک نکتے اور ایک ایک لفظ پر طویل بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ جو بھارت کے دورے پر گئے تھے، کا خیال ہے کہ مذاکرات کے دوبارہ انعقاد میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ امریکہ کی نظر میں ان مذاکرات کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس کے خیال میں جب امریکی افواج افغانستان چھوڑ کر جائیں تو وہاں حالات زیادہ پرامن ہوں اور یہ مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ کوئی کچھ بھی کہے، افغان طالبان کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اور اگر امریکی افواج کابل میں موجود نہ ہوں تو وہ اسی طرح افغان دارالحکومت میں دندناتے پھریں جس طرح بعض صوبوں میں ان کا عمل دخل یا کنٹرول ہے اور کابل کی حکومت انہیں پوری طرح قابو میں نہیں کرسکی، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے صدر اور چیف ایگزیکٹو یہ چاہتے ہیں کہ امریکی افواج 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں۔ خود پینٹاگون نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ اتحادی افواج 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گی، بلکہ اتحادی افواج کے افغانستان سے سبکدوش ہونے والے کمانڈر جنرل جان کیمبل تو مزید کئی سال تک امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ افغان طالبان نے قطر کے اجلاس میں یہ شرط رکھی تھی کہ ان کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ان کے منجمد فنڈ واگزار کئے جائیں تاکہ انہیں نقل و حمل میں آسانی ہو لیکن ابھی تک اس شرط کے بارے میں افغان ردعمل سامنے نہیں آیا، البتہ اس سے پہلے افغان صدر کہہ چکے تھے کہ مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں۔
مذاکرات کا انعقاد چھ ماہ میں ہو، یا اس سے پہلے چار ملکی رابطہ گروپ کے آج ہونے والے اجلاس سے مثبت امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں، چین مذاکرات کے انعقاد میں بہت دلچسپی رکھتا ہے اور اگر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر نہ آتی تو مذاکرات کا دوسرا دور چین میں ہی کسی جگہ ہونا تھا، چین کی خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں سیاسی صورت حال مستحکم ہو، اور امریکہ کے جانے کے بعد امن و امان خراب نہ ہو، اس مقصد کے لئے افغان طالبان کا حکومت کے ساتھ آن بورڈ ہونا صروری ہے۔ افغانستان میں چین کا کردار اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ چین کے زن جیانگ صوبے کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجو افغانستان میں طالبان کا ساتھ دیتے ہیں، اس لئے اس تنظیم پر قابو پانے کے لئے چین افغانستان میں امن و امان کو اہمیت دیتا ہے۔ چار ملکی رابطہ گروپ کے اجلاس سے پہلے اسلام آباد میں پاکستان اور افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہوں اور ڈی جی ایم اوز کی ملاقات ہوئی جس میں طے کیا گیا کہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس ملاقات میں پاکستان نے چارسدہ کی دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے ثبوت افغان انٹیلی جنس چیف کو پیش کر دئیے۔ اس اجلاس میں بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
جن علاقوں میں افغان طالبان کا اثر و رسوخ ہے وہاں افغان حکومت کی رٹ نہیں ہے، افغانستان کی تاریخ بھی یہی ہے کہ جس کا کابل پر قبضہ ہو وہی افغانستان کا حکمران جانا جاتا ہے، جو علاقے دارالحکومت سے دور ہیں، وہاں مرکزی حکومت کا کنٹرول عموماً کمزور ہی رہا ہے اور اس وقت بھی یہی پوزیشن ہے۔