آئین کے تحت کوئی صوبائی اسمبلی ، وفاقی قانون ختم نہیں کر سکتی
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ خوش ہیں کہ ان کی حکومت نے سندھ اسمبلی سے نیب آرڈیننس 1999ء کو ختم کراکے بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوش کر دیا ہے جس نے سید قائم علی شاہ کو ہٹا کر مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ وزیر قانون ضیالنجار خوش ہیں کہ انہوں نے وہ قانون بزعم خویش ختم کرا دیا جس میں خود انہیں حفاظتی ضمانت لے کر اسمبلی میں بل پیش کرنے کے لئے آنا پڑا۔ آئینی پوزیشن تو یہی ہے کہ کوئی صوبائی اسمبلی کوئی ایسا قانون ختم نہیں کرسکتی جو بھلے سے کسی آمر نے بذریعہ آرڈیننس نافذ کیا ہو لیکن بعد میں سترھویں ترمیم کے تحت اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگیا، سندھ اسمبلی میں جو بل منظور کرایا گیا اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، یہ قانون اٹھارہ برس سے نافذ چلا آرہا ہے جس کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ وفاقی حکومت تو 2013ء کے الیکشن کے بعد ختم ہوگئی لیکن سندھ میں اب تک پیپلز پارٹی کی حکمرانی چلی آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا قانون جو پیپلز پارٹی کے خیال میں ایک آمر نے نافذ کیا تھا اس لئے اس کا ختم کرنا ضروری تھا تو پھر اسے ختم کرتے کرتے سندھ اسمبلی کو نو سال کیوں لگ گئے؟ پیپلز پارٹی کو تو آمر کا بنایا ہوا یہ قانون اسی وقت ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی جب آمر استعفا دے کر رخصت ہوگیا تھا اور یہ حادثہ بھی 2008ء میں ہوچکا تھا، لیکن پیپلز پارٹی نے اس قانون کو ختم کرنے کے لئے نو سال انتظار کیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب پیپلز پارٹی وفاق اور سندھ میں برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف نیب کے تحت مقدمات درج نہیں تھے۔ یہ سب مقدمات بعد میں درج ہوئے اور پارٹی کے جو رہنما ان مقدمات میں مطلوب و مقصود ٹھہرے وہ بھی بعد میں ہوا۔ مثال کے طور پر جب ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ہوئی اس وقت اگرچہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ختم ہوچکی تھی لیکن سندھ میں یہ پارٹی پورے طنطنے کے ساتھ حکومت کر رہی تھی، اس کے باوجود ڈاکٹر عاصم کے علاوہ پارٹی کے دوسرے رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے۔ شرجیل میمن سندھ میں وزیر اطلاعات تھے، لیکن وزارت چھوڑ کر بیرون ملک جا بیٹھے اور عرصے تک واپس نہیں آئے، اسی طرح کے کئی رہنما اب تک بیرون ملک بیٹھے ہیں اور کسی جانے یا انجانے خوف کی وجہ سے واپس آنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے۔ سندھ حکومت کے کئی بااثر بیوروکریٹ بھی اس دوران گرفتار ہوئے اور ضمانتوں پر رہائی کے بعد بیرون ملک ایسے گئے کہ اب تک ان کی واپسی بھی نہیں ہوئی۔ تفصیل یہاں درج کی جاسکتی ہے لیکن اس تجزئیے کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے۔ مختصر یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ سندھ اسمبلی سے جو بل منظور کرایا گیا ہے اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جو پارٹی رہنما نیب کی زد میں آگئے تھے یا مزید آنے والے تھے، پارٹی نے انہیں بچانے کے لئے یہی راستہ مناسب سمجھا، حالانکہ اگر آمر کے قانون کو ختم کرنا مقصود تھا تو ایسے بہت سے قوانین اب تک موجود ہیں جن کو پیپلز پارٹی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
یہ سوال اپنی جگہ بنیادی ہے کہ کیا کوئی صوبائی اسمبلی کسی وفاقی قانون کا اس طرح خاتمہ کرسکتی ہے جس طرح نیب آرڈیننس کے خاتمے کا بل منظور کرایا گیا۔ وفاقی حکومت تو سندھ اسمبلی کے اس اختیار کو تسلیم نہیں کرتی لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کرپشن کی زبردست مخالف ہے، اس لئے وہ اس کے خاتمے کے لئے نیب آرڈیننس سے بہتر قانون ایک مہینے کے اندر اندر لے کر آئے گی۔ چلئے یہ جب ہوگا، تب ہوگا۔ فی الحال تو اسمبلی کے منظور کردہ اس بل کو منظوری کے لئے گورنر کے پاس جانا ہے، جن کے دستخطوں کے بغیر یہ بل قانون نہیں بن سکتا۔ گورنر نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آئین کے تحت وہ اگر کسی ایسے بل پر دستخط نہ کرنا چاہیں تو ان وجوہ کے ساتھ واپس بھیج سکتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دستخط نہیں کر رہے۔ اب اگر گورنر نے بل واپس کر دیا تو اسے اسمبلی سے دوبارہ منظور کرایا جائے گا اور دوبارہ دستخطوں کے لئے گورنر کو بھیجا جائے گا جس پر وہ دستخط کرنے کے پابند ہونگے لیکن اس دوران سندھ اسمبلی کے پاس کردہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کر دیا جائیگا جس کا اعلان اپوزیشن نے پہلے ہی کر رکھا ہے۔ اس لئے جب تک عدالت اس کے متعلق حتمی کا فیصلہ نہیں کرتی، یہ معاملہ معلق رہے گا یعنی نیب کا قانون جو اس وقت سندھ سمیت پورے ملک میں نافذ ہے بدستور نافذ رہے گا اور اس کے تحت جو مقدمات چل رہے ہیں، وہ بھی پہلے کی طرح چلتے رہیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش 500 مقدمات اس آرڈیننس کے تحت چل رہے ہیں۔
عدالت میں یہ سوال زیر بحث آئیگا کہ کیا وفاقی حکومت کا بنایا ہوا قانون جسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو سندھ اسمبلی (یا کوئی بھی اور صوبائی اسمبلی) ختم کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم آئین پاکستان سے رجوع کرتے ہیں تو آئین کا آرٹیکل 143ہماری رہنمائی کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے۔
’’ اگر صوبائی اسمبلی کے کسی قانون کی کوئی شرط مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ ) کے کسی قانون جس کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) نافذ کرنے کی مجاز ہے، کی کسی شرط سے متناقض ہو تو مجلس شوری (پارلیمنٹ) کا قانون خواہ صوبائی اسمبلی کے قانون سے قبل یا بعد میں منظور کیا گیا ہو غالب رہے گا اور صوبائی اسمبلی کا قانون تناقض کی حد تک باطل ہوگا۔‘‘
اب دیکھنا ہوگا کہ جب یہ معاملہ عدالت میں جائیگا تو سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی اپنا مقدمہ کس طرح پیش کرتی ہے اس جماعت میں کئی قانونی ماہرین موجود ہیں، جو گورنر، وزیر، جج اور اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ پارٹی کا مقدمہ کس طرح لڑتے ہیں۔ عدالتوں میں تو جو بھی فیصلہ ہو لیکن وفاق اور صوبہ سندھ میں ایک نئی چیقلش کا آغاز ہو چکا ہے، جو کافی عرصے تک چلتی رہے گی۔ اس سے پہلے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ حتمی فیصلے تک اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔ سندھ حکومت نے اُن کی خدمات وفاق کو واپس کر دی تھیں۔ اب بھی عدالتی حکم کے باوجود اُن کے بعض اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں۔
نیب قانون