سی پیک کے ساتھ ساتھ اقتصادی منصوبوں کی بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحفظ دینے کی ضرورت
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
نیکٹا نے تجویز دی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ اس راہداری پر کام کرنے والے انجینئروں اور فنی ماہرین کو شاہراہوں کی تعمیر کے دوران مکمل تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ گوادر ہوشاب موٹر وے (ایم 8) کے 193 کلومیٹر حصے کی تعمیر کے دوران ایف ڈبلیو او کے 26 کارکنوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی لئے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ کیلئے جس پر چینی ماہرین بھی کام کریں گے نیشنل سکیورٹی ڈویژن بنایا جائے گا۔ چینی صدر شی چن پنگ کے دورۂ پاکستان کے موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان سے ملاقات کرکے انہیں یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور فنی ماہرین کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ جس پر چینی صدر نے اظہار اطمینان کیا تھا۔ ماضی میں چونکہ کئی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئر اغوا اور قتل ہوتے رہے ہیں، اس لیے بجا طور پر چینی انجینئروں کی حفاظت کے ضمن میں حکومت کو تشویش ہوسکتی ہے کیونکہ جن علاقوں سے اقتصادی راہداری نے گزرنا ہے وہاں امن و امان کے حوالے سے بعض مشکلات درپیش ہیں۔ ہمارے خیال میں صرف اقتصادی راہداری کو ہی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ پاکستان کے تمام اقتصادی مفادات کو اس کے تحت تحفظ ملنا چاہئے کیونکہ ملک اگر اقتصادی طور پر مستحکم نہ ہو تو سیاسی استحکام کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ سوویت یونین کا اتحاد کسی فوجی شکست کی وجہ سے پارہ پارہ نہیں ہوا تھا، سوویت یونین کی وار مشین پوری طرح مضبوط تھی، اس کی بری فوج، فضائیہ اور بحری قوت صحیح سلامت تھی، بین البراعظمی میزائلوں کا سارا نظام موجود تھا، لیکن جب اس سپر طاقت کی اقتصادیات اس کی جنگی مشینری کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ رہیں تو سپر طاقت بھی ختم ہوگئی اور اس میں سے چودہ ملک وجود میں آگئے۔ ایک زمانے میں سوویت یونین کی کرنسی روبل رل گئی تھی اور ایک ڈالر کے عوض 1700 روبل بھی دینے پڑتے تھے۔ چنانچہ جب پوٹن برسر اقتدار آئے تو انہوں نے روس کی اقتصادی قوت کی بحالی پر بھرپور توجہ دی۔ اس محاذ پر انہیں بہت کامیابی ملی اور اب روسی اقتصادیات کی بحالی کا کام تیزی سے جاری ہے۔ روس نے یہ راز پالیا تھاکہ اقتصادی بحالی کے بغیر محض فوجی قوت سے کوئی سربلندی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں حائل مشکلات دور کرنے کیلئے اگر اسے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنانے پر غور ہو رہا ہے تو یہ بہت ہی صائب فیصلہ ہے، لیکن صرف ایک سی بیک ہی کیوں؟ پاکستان کے جو دوسرے اقتصادی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں کیا ان کا تحفظ ضروری نہیں؟ پی آئی اے کی ہڑتال کے معاملے کو ہی لے لیں، یہ پہلے ہی قومی معیشت پر اربوں ڈالر کا بوجھ ڈال رہی تھی لیکن پی آئی اے کے ملازموں کی ہڑتال تو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے۔ روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان تو ہو رہا ہے، جہاں جہاں پی آئی اے کی سروس ہے وہاں وہاں مسافر پریشان ہیں۔ مسافروں کے علاوہ کارگو سروس اور دستاویزات کی ترسیل کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ یوں جب یہ طوفان تھمے گا تو اندازہ ہوگا کہ اس نے ہمارے جسد قومی پر کہاں کہاں زخم لگائے ہیں۔ پی آئی اے کی ہڑتال کو حکومت نے ممنوع قرار دیا تھا لیکن ملازمین نے اسے پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دی۔ اپنے ہڑتالی پروگرام پر اڑے رہے اور پورا فلائٹ آپریشن رکوا دیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ ہفتے کے روز پائلٹوں کی تنظیم ’’پالپا‘‘ میں ہڑتال جاری رکھنے پر اختلاف پیدا ہوگیا اور عامر ہاشمی نے اعلان کیا کہ تین روزہ سوگ ختم ہوگیا ہے اس لیے اب پائلٹوں کی ہڑتال جاری نہیں رہنی چاہئے۔ اس پر نہ صرف اختلاف رائے سامنے آیا بلکہ مخالفوں نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقتصادی مفادات کے تحفظ کیلئے اسے نیشنل ایکشن پلان کا تحفظ دینا کتنا ضروری ہے ورنہ ’’اقتصادی دہشت گردی‘‘ کے سلسلے کو لگام نہیں دی جاسکے گی۔ ایک پی آئی اے پر ہی کیا موقوف حکومت جس جس ادارے کی بھی نج کاری کا سوچے گی وہیں وہیں ایسی صورتحال درپیش ہوگی اس لیے ابھی سے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ورنہ سوچ تو یہ بن گئی ہے کہ کوئی بھی ادارہ بھلے سے اربوں کے خسارے میں ہو، خسارے سے نکلنے نہیں دیا جائے گا اور جو نکالنے کی کوشش کرے گا اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چاہے وہ حکومت ہو یا کوئی سرمایہ کار، ایسے ماحول میں کون سرمایہ کاری کیلئے آئے گا اور کون اپنے سرمائے کے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگائے گا؟
لاہور میں شاہراہ قائداعظم پر جلسے جلوس نکالنے پر پابندی ہے، لیکن اس پر نہ صرف عمل نہیں ہوتا بلکہ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ چند درجن مظاہرین کا جب بھی دل چاہتا ہے مال روڈ بند کرا دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے پورے شہر کا ٹریفک جام ہوکر رہ جاتا ہے۔ لاہور میں کچھ تو ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور رہی سہی کسر مظاہرین پوری کردیتے ہیں اور شہریوں کو ایک عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اگر مظاہرہ ان کا حق ہے تو کیا ان لوگوں کا کوئی حق نہیں جو گھنٹوں ٹریفک کے عذاب میں پھنسے رہتے ہیں؟ جن میں مریض، عورتیں اور بچے سبھی شامل ہوتے ہیں۔ ٹریفک کے اس ہجوم میں پھنسنے کی وجہ سے اموات بھی ہوچکی ہیں، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ لاہوریوں کا مقدر بن چکا ہے اور جمہوری حق کے نام نہاد علمبردار ہوش و خرد کی کوئی بات سنے بغیر اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ کیا جلوسوں اور مظاہرین کو کوئی تحفظ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نہیں دیا جاسکتا؟ اور کیا یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہے گا اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ مال روڈ کے تاجر سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں روزانہ لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا، انہیں وہاں سے ریلیف بھی ملا لیکن اگر عدالتی احکامات پر عملدرآمد ہی نہیں ہوگا تو کیا فائدہ؟ یہ ضروری ہے کہ حکومت مظاہرین کیلئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق بنائے‘ چند درجن لوگ اگر پورا شہر بند کرنے پر قادر ہو جائیں تو پھر یہ سلسلہ کہیں نہیں رک سکتا۔ حکومت اگر اس معاملے کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بناکر اسے اقتصادی دہشت گردی قرار دے تو ممکن ہے شہری سکون کا سانس لیں، اس مقصد کیلئے قانون سازی بھی ضروری ہے۔