کیا جنرل (ر) پرویز مشرف وطن واپس آکر سرگرمیوں کیلئے تیار ہیں ؟

کیا جنرل (ر) پرویز مشرف وطن واپس آکر سرگرمیوں کیلئے تیار ہیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
 تین مسلم لیگی دھڑوں کے سربراہ دبئی میں اکٹھے بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد وقت کا تقاضا ہے۔ اس خیال سے کسی کو کیا اختلاف ہوسکتا ہے؟ لیکن عملی طور پر ایسا اتحاد کہیں نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ مسلم لیگیں بھی آپس میں متحد نہیں ہوسکیں اور جب کبھی اتحاد کی بات ہوتی ہے، اور دو چار ہاتھ لب بام رہ جاتے ہیں کہ کمند ٹوٹ جاتی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے جنرل (ر) پرویز مشرف تو اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ قائداعظم مسلم لیگ انہوں نے بنوائی تھی، اگر کسی کو اس میں شک ہے تو ان کی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ پڑھ لے، جب جنرل صاحب کا آفتاب اقتدار نصف النہار پر تھا، تو یہ کتاب شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے تمام تر مندرجات سے تو اتفاق مشکل ہے تاہم یہ ایک عہد کی سیاسی تاریخ ہے جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ شروع ہوا اور ان کے ساتھ ہی ختم ہوگیا، اب اگرچہ وہ سیاست میں ہیں، ان کی ایک سیاسی جماعت بھی ہے جس کے وہ سب کچھ ہیں، لیکن جماعت کی حیثیت ایسی ہے جس پر یہ مصرع صادق آتا ہے،
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
جنرل (ر) پرویز مشرف رہتے دبئی میں ہیں، جب جی چاہے امریکہ کا چکر بھی لگا آتے ہیں لیکن پاکستان آنے کے لئے انہوں نے ایک شرط رکھی ہوئی ہے کہ ڈاکٹر اجازت دیں، لیکن یہ ڈاکٹر عجیب ستم ظریف ہیں کہ انہیں پاکستان آنے سے روکتے ہیں، امریکہ جانے پر انہیں البتہ کوئی اعتراض نہیں، حالانکہ دبئی سے کراچی دو گھنٹے کی مسافت پر ہے اور امریکہ کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے کے لئے چودہ پندرہ گھنٹے درکار ہیں، اب سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ جو بیمار پندرہ گھنٹے جہاز میں بیٹھ کر امریکہ پہنچ سکتا ہے، اس کے لئے کراچی آنا کیا مشکل ہے؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی آمد کی راہ میں بظاہر وہ مقدمات حائل ہیں جو پاکستانی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، اسی مجبوری کی بنا پر وہ دبئی کے گوشۂ عافیت میں بیٹھے ہیں۔ البتہ چودھری شجاعت حسین نے انہیں یہ صائب مشورہ ضرور دیا ہے کہ وہ پاکستان آئیں اور یہاں آکر سیاست کریں، دیکھیں وہ اس مشورے کو کب مانتے ہیں۔
آصف علی زرداری بھی دبئی میں مقیم ہیں، انہیں بھی ڈاکٹروں نے پاکستان آنے سے روک رکھا تھا، گزشتہ دنوں ڈاکٹروں کے مشورے پر ان کی واپسی ہوئی۔ مختصر قیام کے بعد وہ واپس آئے اب پھر دبئی میں ہیں اور سندھ حکومت کے سربراہ مراد علی شاہ نے بھی گزشتہ روز ہی ان سے ملاقات کی ہے، لگتا ہے اب مستقبل قریب میں زرداری کا واپس آنے کا ارادہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مراد علی شاہ ان کی آمد کا انتظار کرتے، خود دبئی نہ جاتے، پاکستان میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اور ان کے صاحبزادے نواب شاہ اور لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں گے۔ لیکن اب یہ معاملہ بھی رک گیا ہے۔ آصف زرداری کی جماعت سندھ میں حکمران ہے، کبھی وزیراعلیٰ انہیں ملنے جاتے ہیں تو کبھی صوبائی کابینہ کا اجلاس دبئی میں بلا لیا جاتا ہے، پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس یا کور کمیٹی کی میٹنگیں بھی وہیں ہوتی ہیں، البتہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی پارٹی کے کسی رکن کے بارے میں یہ خبر کبھی نہیں آئی کہ وہ ان سے ملاقات کرنے دبئی گئے ہوں، ممکن ہے جاتے ہوں اور کسی کو خبر نہ ہونے دیتے ہوں۔ اب اگر ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں تو دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں سے ہوئی ہیں، یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی اپنی پارٹی کا کوئی رکن بھی شریک اجلاس تھا یا نہیں۔ جو تصویر بھی شائع ہوئی ہے، اس میں بھی جنرل صاحب کے ساتھ چودھری شجاعت حسین اور ان کے بھانجے چودھری مونس الٰہی کھڑے ہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف سے پیر صاحب پگارو اور چودھری شجاعت حسین کی ملاقات کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ مسلم لیگوں کو متحد کرکے کوئی گرینڈ الائنس بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں باتیں ہی نہیں ہو رہیں نہ تو مسلم لیگیں متحد ہوں گی اور نہ ہی کوئی گرینڈ الائنس بنے گا، اگرچہ اتحاد کی ضرورت ہر کوئی محسوس کرتا ہے لیکن اس اتحاد کے ’’برے اثرات‘‘ کا سامنا کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ مثال کے طور پر اگر مسلم لیگیں متحد ہوتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ متحدہ مسلم لیگ کا سربراہ کون ہوگا؟ جنرل (ر) پرویز مشرف، چودھری شجاعت حسین، پیر صاحب پگارو، شیخ رشید احمد یا اعجاز الحق؟
ماضی میں بھی اسی وجہ سے مسلم لیگیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا کر بیٹھی رہیں اور آئندہ بھی یہی نظر آتا ہے۔یہ سب حضرات اپنی اپنی جماعتوں کے صدر ہیں اور پارٹیاں ان کی سیاسی خواہشات کے تابع ہیں، اب اگر کوئی ایک سربراہ منتخب ہو جاتا ہے تو باقی رہنماؤں کی حیثیت کیا ہوگی؟ اس لئے مسلم لیگیں متحد نہیں ہوتیں نہ ہوسکتی ہیں۔ البتہ دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال برا نہیں ہے۔ جہاں تک گرینڈ الائنس کا تعلق ہے یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جیسی ’’ملین مارچ‘‘ ہے یا اب خیبرپختونخوا میں ’’بلین ٹری‘‘ ہے۔ ملین کا مطلب ہے دس لاکھ اور بلین کا مطلب ہے ایک ارب، اب تو یار لوگ دو چار ہزار کی جلسی کو بھی لاکھوں کا اجتماع کہنے لگے ہیں اور جس جلسے میں آٹھ دس ہزار لوگ آجائیں اسے ’’ملین‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے، اسی طرح ’’بلین ٹری‘‘ کا معاملہ ہے، عمران خان نے ایک دور میں کہا تھا کہ کے پی کے میں ایک کروڑ بیس لاکھ درخت لگا دئیے گئے ہیں تو ان کے مخالفین نے چیلنج کیا تھا کہ یہ درخت دکھا دئیے جائیں، معلوم نہیں ایسا ہوا کہ نہیں، البتہ اب ایک ارب درختوں کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ گرینڈ الائنس کا معاملہ بھی ہمیں کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے، اس وقت پورے ملک میں کوئی سیاسی اتحاد نہیں، جماعتوں کی اپنی اپنی سیاست اور اپنی اپنی حکمت عملیاں ہیں، عین ممکن ہے الیکشن کے قریب جا کے دوچار جماعتیں متحد ہوکر کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹس کرلیں، جیسا کہ عموماً ہوتا ہے، لیکن ایسے اتحاد کو گرینڈ الائنس کہنا تو زیادتی ہے، ہمارا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ اس وقت وزارت عظمیٰ کے بہت سے امیدوار ہیں، اتحاد کی صورت میں تو ایک ہی وزیراعظم پر اتفاق بھی کرنا ہوگا، جو مشکل کام ہے۔ اس لئے گرینڈ الائنس کو بھی فی الحال قیاس آرائی سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیئے۔
وطن واپسی

مزید :

تجزیہ -