کیا مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں کرنیوالے مایوس ہو گئے ؟

کیا مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں کرنیوالے مایوس ہو گئے ؟
کیا مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں کرنیوالے مایوس ہو گئے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

کوئی جائے اور ان نجومیوں کو ڈھونڈ کر لائے جو 28 جولائی کے فیصلے کے بعد مسلسل یہ پیش گوئیاں کررہے تھے کہ مسلم لیگ ن ٹوٹی کہ ٹوٹی، کوئی اس میں فارورڈ بلاک دیکھ رہا تھا اور بعض سیاست دان تو ان نجومیوں کی پیش گوئیوں سے اتنے متاثر ہوگئے تھے کہ انہوں نے زیب داستان کے لئے کچھ اضافے بھی کردیئے تھے اور یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ فارورڈ بلاک کے ساٹھ ارکان نے ان سے رابطہ کیا ہے بعض دوسرے تو اس تعداد کو اسی تک لے گئے تھے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ تا این دم کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن پایا، اب یار لوگوں کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی ہے کہ جو بلاک یکم اگست تک بن جانا چاہئے تھا وہ اب تک کیوں وجود میں نہیں آسکا، لگتا ہے جو اِکا دُکا اختلافی بیانات سامنے آرہے تھے انہی سے اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ یہ اختلافات اگر آگے بڑھیں گے تو لازماً فارورڈ بلاک بھی بنے گا جب ایسا نہ ہوسکا تو انہیں تشویش ہوئی کہ آخر یہ کام کیوں رک گیا ہے انہوں نے غور کیا تو معلوم ہوا جب تک مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اس وقت تک فارورڈ بلاک بننا مشکل ہے، چنانچہ یہ پریشان حال لوگ سیانوں کے پاس گئے کہ اب کیا کیا جائے، تو انہیں بتایا گیا کہ اس کی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت ہے اس لئے پہلے کوئی ایسی سبیل کی جائے کہ جس کے ذریعے شاہد خاقان عباسی کی حکومت کا خاتمہ ممکن ہو، چنانچہ فوری طور پر قطر سے ایل این جی گیس کی درآمد کا ایشو نکالا گیا اور کہا گیا کہ یہ گیس مہنگے داموں درآمد کی گئی تھی اور کئی ملکوں نے اس سے بہت کم قیمت پر اپنے ہاں گیس درآمد کی، چند دنوں تک اس معاملے پر خاصی بیان بازی ہوئی لیکن جب وزیراعظم نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ گیس کی درآمد کا یہ سودا ان کی نگرانی میں ہوا جب وہ وزیر پٹرولیم تھے، قطر نے سب سے سستی گیس پاکستان کو فروخت کی، اس سے کم قیمت پر کسی دوسرے ملک کو گیس نہیں دی گئی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ یہ دعوے کررہے ہیں وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ان سے بات کرلیں اور جو عدالت جانا چاہتے ہیں وہ بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں ان کے اس دو ٹوک اعلان کے بعد اس معاملے پر تو بظاہر خاموشی چھاگئی البتہ وزیراعظم کے خلاف مہم ٹھنڈی نہیں پڑی اور کسی نہ کسی بہانے ان کے خلاف نکتہ چینی کا سلسلہ جاری ہے، کبھی ان کی حکومت کو ناکام کہا جاتا ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ لندن میں نواز شریف سے کیوں ملے، قومی خزانے سے یہ اخراجات کیوں کئے گئے، جب یہ بات سامنے آئی کہ وہ ذاتی اخراجات کرکے نجی دورے پر لندن گئے تھے ٹکٹ بھی انہوں نے خود خریدا، تو پھر دوسرے معاملات پر گفتگو شروع کردی گئی، پی آئی اے گذشتہ کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور اس کی تہہ در تہہ وجوہ ہیں، دنیا بھر میں ائر لائنیں اکانومی کی مہم چلاتی ہیں جہازوں کی مجموعی نشستوں کے حساب سے ملازم رکھتی ہیں لیکن ہماری پی ٹی آئی کا باوا آدم ہی نرالا ہے، اس کے پاس جہاز کم ہیں لیکن ملازمین بہت زیادہ ہیں جنہیں ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں، ہر کوئی ائر لائنز کا مال کھانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے، حتیٰ کہ جو ملازمین سٹور کی نگرانی پر مامور ہیں وہ بھی شام کو گھر جاتے ہوئے مکھن اور جام کی وہ چھوٹی چھوٹی ڈبیاں تھیلے میں بھر کر گھر لے جاتے ہیں جو مسافروں کو دوران پرواز دی جاتی ہیں، یہ سلسلہ ہر حکومت کے دور میں جاری رہتا ہے، پی آئی اے اگر خسارے میں چل رہی ہے تو اس کا ملبہ ماضی کی بہت سی حکومتوں پر ڈالا جاسکتا ہے، اس کی وجوہ جو بھی ہوں وزیراعظم کی ’’ائر بلیو‘‘ کا پی آئی اے کے بحران میں بہرحال کوئی حصہ نہیں اب یار لوگ یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پی آئی اے کی نج کاری اس لئے کی جارہی ہے تاکہ ’’ائر بلیو‘‘ کو فائدہ پہنچایا جاسکے حالانکہ پی آئی اے اس وقت سے بحران کا شکار چلی آرہی ہے جب ائر بلیو کا کوئی وجود نہیں تھا، اور کیا یہ مشورہ ائر بلیو نے دیا تھا کہ پی آئی اے اپنے بیس جہاز چلانے کیلئے بیس ہزار ملازم رکھ لے؟ پی آئی اے کو اگر بحران سے نکالنا ہے تو اس کا حل یہ ہے جو دنیا کی باقی ائر لائنیں کرتی ہیں یعنی فی سیٹ کم سے کم ملازم، موجودہ حالات میں تو پی آئی اے کو چلانے کے لئے قارون کا خزانہ بھی نا کافی ہوگا۔ در اصل اب ثابت کرنے کی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چونکہ اپنی جماعت کے صدر نواز شریف کی پالیسی پر چل رہے ہیں اس لئے وہ ناکام ہیں، یہ گولی اس لئے بیچی جارہی ہے کہ جو لوگ مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بنانے نکلے تھے ان کی امید پوری نہیں ہورہی اسلئے اب انہوں نے اپنی توپوں کا رخ وزیراعظم کی طرف کردیا ہے اس لئے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اس وقت تک پارٹی میں توڑ پھوڑ ممکن نہیں اسلئے اگر مسلم لیگ ن کو توڑنا ہے تو پہلے حکومت کو ناکام ثابت کیا جائے، اور اس کیلئے ہر حربہ آزمایا جائے، اگرچہ اس پر کام تو شروع ہے لیکن کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا۔ اسلئے چند دنوں سے اینکر اس معاملے پر چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے ٹکڑے کرنے کی مہم چھوڑ کر حکومت کو ناکام ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔
مایوس

مزید :

تجزیہ -