ہائیکورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس مسترد ہو چکا ، کیا اب ری اوپن ہو سکتا ہے ؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
خادم پنجاب شہباز شریف کے خلاف ملتان میٹرو کا معاملہ بیک فائر کرگیا ہے، اور چند روز تک اس جعل سازی کی بنیاد پر منائی جانے والی خوشیاں دیر پا ثابت نہیں ہوئیں معلوم نہیں جن لوگوں نے اپنے تئیں یہ تیر چلایا تھا وہ اس کی حقیقت سے واقف تھے یا بے خبری میں مارے گئے کیونکہ اسلام آباد میں چین کے قائم مقام سفیر کے بعد چینی وزارت خارجہ نے تردید کردی ہے کہ ملتان میٹرو میں کسی قسم کی کوئی کرپشن ہوئی ہے جو لوگ اس معاملے کو لے کر اٹھے انہیں پورا یقین تھا کہ شورو غوغا کے ذریعہ شہباز شریف کو بھی پھنسا لیا جائیگا لیکن یہاں کوئی داؤ کام نہیں آیا، چینی وزارت خارجہ کے مطابق چین کا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن جلد ہی جیانگ سویابائٹ کمپنی کے خلاف سیکیورٹیز خلاف ورزیوں پر جرمانوں کا اعلان کرے گا، جیانگ سویا بائٹ کے پاکستان میں کسی کمپنی یا فرد کے ساتھ سرمایہ کے تبادلے کے اقتصادی روابط نہیں پائے گئے، حکام کی طرف سے جعل سازی کی سرکاری تصدیق کے بعد جیانگ سویا بائٹ فرم کے شیئر مارکیٹ میں حصص کی قیمت گر گئی ہے، سی ایس آر سی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس کمپنی نے 2015ء اور ستمبر 2016ء میں بھی تجارتی معاہدوں میں جعل سازی کی تھی۔
چین کے سفیر اور حکومت کی وضاحتوں کے بعد کیا ان اینکروں اور تجزیہ کاروں سے بھی کوئی باز پرس ہوگی جنہوں نے ملتان میٹرو کے سکینڈل کو حرفِ آخر سمجھ کر نہ جانے کیا کیا فیصلے سنا دیئے تھے اور جن کا خیال تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف بھی تر نوالہ ثابت ہونے والے ہیں لیکن اب اس محاذ پر مکمل مایوسی چھائی ہوئی معلوم ہوتی ہے البتہ فرزندِ راولپنڈی ایک درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں جس میں حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست کی گئی ہے اس درخواست پر جو بھی فیصلہ ہوگا وہ تو وقت آنے پر معلوم ہو ہی جائیگا لیکن پہلے یہ جاننا چاہئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دراصل ہے کیا؟۔ مخالفین کا خیال ہے کہ اگر یہ کیس دوبارہ کھلتا ہے تو شہباز شریف اس میں پھنس جائیں گے اس سلسلے میں بعض سیاستدانوں کے شائع شدہ بیانات موجود ہیں جنہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں حقائق سے زیادہ خواب و خواہش کا دخل ہے اور اس کا کیا اعتبار، لیکن بعض لوگ اس کے سہارے جی رہے ہیں۔
حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں 2000ء میں دائر کیا گیا تھا، جس کی بنیاد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ایک مبینہ بیان پر رکھی گئی تھی جو انہوں نے 25 اپریل 2000ء کو دیا تھا، اس بیان کا لب لباب یہ تھا کہ شریف خاندان نے 1990ء کی دہائی میں منی لانڈرنگ کی تھی بعد میں اسحاق ڈار نے اس بیان سے لا تعلقی ظاہر کردی۔ ابھی ریفرنس پر کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ دسمبر 2000ء میں میاں محمد شریف اور نواز شریف سمیت پورا خاندان سعودی عرب چلا گیا جس کے بعد ریفرنس داخل دفتر ہوگیا اس دوران سعودی عرب میں میاں محمد شریف کا انتقال ہوگیا۔ 2007ء میں جب شریف فیملی واپس آئی تو میاں نواز شریف کی والدہ شمیم اختر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی تھا، اس سلسلے میں نہ تو کوئی شہادت پیش کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے ٹھوس شواہد ہیں۔ اسلئے یہ ریفرنس خارج کیا جائے، درخواست دھندہ کے حق میں پہلی پیش پر ہی حکم امتناعی جاری کردیا گیا۔ مقدمے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ کررہا تھا، جو مسٹر جسٹس خواجہ امتیاز اور مسٹر جسٹس فرخ عرفان خان پر مشتمل تھا بنچ نے ریفرنس خارج کرنے کا متفقہ فیصلہ دیدیا البتہ جسٹس خواجہ امتیاز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر نیب کو نئی شہادتیں دستیاب ہوجائیں تو ریفرنس دوبارہ کھولا جاسکتا ہے۔ ڈویژن بنچ کے دوسرے فاضل رکن جسٹس فرخ عرفان خان کی رائے تھی کہ ریفرنس دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، دونوں فاضل ارکان میں اس مسئلے پر اختلافِ رائے پیدا ہوجانے کے بعد ریفری جج کا تقرر کیا گیا جو ایسی صورت میں کیا جاتا ہے جب کسی مسئلے پر ڈویژن بنچ کے ججوں میں اختلاف رائے پیدا جائے۔ ریفری جج نے فیصلہ سنایا کہ دوبارہ انکوائری نہیں ہوسکتی، ریفری جج نے یہ فیصلہ 11 مارچ 2014ء کو سنایا تھا۔ اس فیصلے پر نیب نے کوئی اپیل دائر نہیں کی کیونکہ اس وقت کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کی رائے یہ تھی کہ اگر نیب نے اس پر اپیل کی تو اس کی بد نامی ہوگی کیونکہ اپیل کے حق میں کافی شواہد دستیاب نہیں تھے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کی رائے تھی کہ ہائی کورٹ کے تین جج (ڈویژن بنچ+ ریفری جج) فیصلے دے چکے ہیں نیب کی قانونی پوزیشن کمزور ہے اس لئے اگر نیب نے اپیل کی تو یہ سمجھا جائیگا کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ریفری جج کے فیصلے کے بعد اب تک یہ کیس بند چلا آرہا ہے البتہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران اس کی باز گشت بھی سنی گئی، جس سے غالباً بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ کیس دوبارہ کھولا جاسکتا ہے یا سپریم کورٹ اس ضمن میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ لیکن ماہرین قانون کی رائے ہے کہ 2014ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب اس وقت تک یہ کیس دوبارہ نہیں کھل سکتا جب تک یہ فیصلہ کالعدم قرار نہیں دیا جاتا، فیصلے کو کالعدم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ممکن ہے کسی قانونی ماہر نے شیخ رشید کو کوئی ایسے نکات سمجھا دیئے ہوں جو دوسرے وکلاء کی نگاہوں سے اوجھل ہوں کیونکہ عدالتوں میں بہت سی درخواستیں ایسی بھی دائر ہوتی ہیں جن کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی اور انہیں ججوں کی تضیع اوقات تصور کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر بعض صورتوں میں وکلاء کو جرمانے بھی ہوتے ہیں گزشتہ روز بھی لاہور ہائیکورٹ نے عوامی تحریک کی ایک درخواست مسترد کی ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ حکومت حلقہ نمبر 120 میں سرکاری وسائل استعمال کررہی ہے، عدالت کے علم میں جب یہ بات لائی گئی کہ درخواست دھندہ نے الیکشن کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کئے تھے لیکن بعد میں دستبردار ہوگئے تو یہ درخواست مسترد ہوگئی ایسی بہت سی درخواستیں عدالتوں میں دائر ہوتی اور مسترد ہوتی رہتی ہیں۔ اسلئے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کیلئے دی جانے والی درخواست میں کتنا وزن ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملتان میٹرو کے کیس میں مایوس ہونے کے بعد اب یار لوگوں کی ساری امیدیں شہباز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس کھلنے کے نکتے پر آکر رک گئی ہیں۔
حدیبیہ پیپر ملز