سیاسی حقیقتوں سے آنکھیں چرا کر مفروضوں پر زورربیاں صرف کیا جا رہا ہے

سیاسی حقیقتوں سے آنکھیں چرا کر مفروضوں پر زورربیاں صرف کیا جا رہا ہے
سیاسی حقیقتوں سے آنکھیں چرا کر مفروضوں پر زورربیاں صرف کیا جا رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

ایک این آر او تو وہ تھا جو جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اس وقت ہوا تھا جب وہ بیرون ملک تھیں، جنرل پرویز مشرف کے پیش نظر اگلے پانچ سال کی صدارت تھی اس سے پہلے وہ کچھ عرصے تک تو ملک کے چیف ایگزیکٹو رہے اور جب بھارت سے مذاکرات کے لئے انہوں نے آگرے جانا تھا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ چیف ایگزیکٹو کی بجائے بطور صدر بھارت جائیں چنانچہ اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو حکم دیا گیا کہ وہ مستعفی ہوجائیں (تاکہ ملکی مفاد میں یہ عہدہ جنرل پرویز مشرف سنبھال سکیں) لیکن انہوں نے نرمی سے کہا کہ استعفا وہ نہیں دیں گے چنانچہ انہیں ’’برطرف‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور چیف ایگزیکٹو نے ایک دو سطری حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صدر رفیق تارڑ اب صدر نہیں رہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سب سے بڑی شکایت نواز شریف سے یہ تھی کہ انہوں نے جس طرح ایک آرمی چیف کو ہٹایا اس طرح تو کسی چپڑاسی کو بھی برطرف نہیں کیا جاتا، اب جس آرمی چیف کو یہ شکایت تھی انہیں تو مملکت کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان شخص کو صدارت سے ہٹاتے ہوئے ادب آداب کا خیال رکھنا چاہئے تھا لیکن وزیراعظم سے تو یہ پوچھا جاسکتا تھا جنرل صاحب سے ایسا سوال نہیں کیا جاسکتا تھا۔
چیف ایگزیکٹو کی جگہ صدارت کا عہدہ تو انہوں نے سنبھال لیا لیکن باقاعدہ انتخاب ایک ریفرنڈم کے ذریعے عمل میں آیا، جس میں انہیں بڑے بڑے سیاستدانوں کی حمایت حاصل تھی اور آج کے سب سے قد آور اور دیانت دار سیاستدان عمران خان اس وقت پوری دیانتداری کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں کھڑے تھے، بعض مخالفین تو الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان کو لالچ یہ تھا کہ جنرل انہیں وزیراعظم بنا دیں گے لیکن وزیراعظم بننے کے لئے انتخاب جیتنا ضروری تھا۔ 2002ء کے انتخاب سے پہلے جنرل پرویز مشرف یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ انہوں نے الیکشن میں کس قسم کی مثبت سوچ والے لوگ منتخب کرانے ہیں چنانچہ انہوں نے امیدواروں پر بعض ایسی پابندیاں لگا دیں جو پہلے نہ تھیں، مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے رکن کے لئے گریجوایشن کی شرط رکھ دی گئی، انہوں نے خود آن دی ریکارڈ کہا تھا کہ اس طرح ہم کم و بیش ایک سو سیاستدانوں کو قومی اسمبلی سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اور ہوا بھی یہی، نوابزادہ نصر اللہ خان سمیت بہت سے سینیئر سیاستدان اس شرط کی وجہ سے الیکشن نہ لڑ سکے، الیکشن سے پہلے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے ایک دھڑا نواز شریف کا حامی تھا جب کہ دوسرے دھڑے کے صدر میاں محمد اظہر تھے، وہ 2002ء کا الیکشن ہار گئے تو مسلم لیگ ق کی صدارت بھی ان کے پاس نہ رہی اور چودھری شجاعت حسین صدر بن گئے، اس وقت سے آج تک وہی صدر چلے آرہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ انتخاب سے پہلے چودھری شجاعت حسین کے ساتھ اتحاد کرلیں کیونکہ اس کے بغیر وہ قابلِ ذکر نشستیں نہ جیت سکیں گے، جنرل صاحب کا خیال تو یہ تھا کہ عمران خان چھ سات نشستیں جیت جائیں گے لیکن وہ صرف اپنی ایک نشست میانوالی سے جیت سکے۔ 2002ء کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ ق کی جو حکومت بنی اس میں تین وزرائے اعظم نے یکے بعد دیگرے یہ منصب سنبھالا، 2006ء میں صدر پرویز مشرف کے عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی اس لئے انہوں نے پارلیمنٹ سے دوبارہ منتخب ہونے کا فیصلہ کیا اور اس سے پہلے بے نظیر بھٹو سے مفاہمت کا ڈول ڈالا، این آر او تو ہوگیا لیکن سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی سزائیں بحال ہوگئیں۔ عدالت اگر این آر او کو ختم نہ کرتی تو سیاست دان بہرحال اسے قبول کرچکے تھے اور ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ عمران خان سمیت کسی سیاستدان نے اس کی مخالفت کی ہو۔ اب جب سے نواز شریف نا اہل ہوئے ہیں ایک ’’مفروضہ این آر او‘‘ کے بڑے چرچے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ این آر او کیا گیا تو وہ پورا پاکستان اسلام آباد کے دھرنے میں جمع کردیں گے، اس بات سے قطع نظر کہ وہ کوئی ایسا دھرنا دے بھی سکتے ہیں یا نہیں جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے کیونکہ ان کا 126 روز کا دھرنا تو پورے پاکستان نے دیکھا شروع شروع میں تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ دھرنا تھا لیکن چند دن کے بعد تو اس کی حیثیت ’’نائٹ میوزیکل شو‘‘ کی رہ گئی تھی لوگ شام کے بعد تیار ہوکر گھروں سے نکلتے، دھرنے میں گانے وغیرہ سنتے، پسند کے نعرے لگاتے اور رات بھیگنے لگتی تو خوشی خوشی گھروں کو چلے جاتے۔ اب اگر کسی کے ذہن میں ایسا ہی دھرنا ہے تو اس پر کون معترض ہوگا؟ جو فن کار اس دھرنے میں پرفارم کریں گے وہ اگر کسی میوزیکل شو میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہوں تو لوگ ہزار ہزار روپے کا ٹکٹ خرید کر شو میں شریک ہوتے ہیں یہاں ایک تو ٹکٹ کوئی نہیں، تفریح کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مفت میں دستیاب ہوجاتا ہے، اس لئے اگر اسلام آباد کے باسیوں کو چند روزہ تفریح میسر آجائے تو کیا برا ہے؟ عمران خان یہ تو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو این آر او نہیں کرنے دیا جائیگا لیکن یہ نہیں بتایا جارہا کہ جس این آر او کے بڑے چرچے ہیں اس کا حدود اربعہ کیا ہے اور یہ کون کس کے ساتھ کررہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو خود کہہ رہے ہیں کہ کوئی این آر او نہیں ہورہا۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک این آر او بھی ہُما کی طرح کا کوئی فرضی پرندہ ہے جسے شور مچا کر ڈرایا جارہا ہے کہ وہ نواز شریف کے سر پر نہ بیٹھے ورنہ پورا ملک اسلام آباد میں اسے اڑانے کیلئے موجود ہوگا۔ جس طرح مسلم لیگ کے اندر شکست و ریخت کے حوالے سے فسانے تراشے جارہے ہیں لگتا ہے این آر او کے متعلق بھی ایسی ہی فسانہ طرازی کی جارہی ہے۔ بقول احمد فراز
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
سیاسی حقیقتیں

مزید :

تجزیہ -