تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ہڑتال روکنے کے لئے لازمی سروس کا سہارا لے لیا

تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ہڑتال روکنے کے لئے لازمی سروس کا سہارا لے لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

صوبہ خیبر پختونخوا میں ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال روکنے کیلئے صوبائی حکومت نے لازمی سروسز کا قانون نافذ کردیا ہے، جس کے تحت ڈاکٹروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وفاقی حکومت نے پی آئی اے کی ہڑتال روکنے کیلئے لازمی سروسز کے قانون کا نفاذ کیا تھا اور ڈاکٹروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا تو چاروں طرف ہاہا کار مچ گئی تھی اور یہ مطالبے بھی ہونے لگے تھے کہ لازمی سروسز کا ’’کالا قانون‘‘ واپس لیا جائے کیونکہ ہڑتال کرنا مزدوروں کا حق ہے اور جمہوریت ڈنڈے سے نہیں چلتی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو جب ہفتے کے روز پی آئی اے کے ہڑتالیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی پہنچے تو انہوں نے وہاں خطاب کرتے ہوئے باقاعدہ مطالبہ کیا تھا کہ پی آئی اے سروس ایکٹ واپس لیا جائے لیکن ابھی اُن کے اس مطالبے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی مخلوط حکومت ہے یہی قانون نافذ کردیا گیا، اسے کہتے ہیں:
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی نے بھی پی آئی اے میں لازمی سروس کے قانون کے نفاذ کی مخالفت کی ہے، اب ان دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت سے کوئی پوچھے کہ جو قانون پی آئی اے یا اسلام آباد لاہور اور کراچی میں نافذ کرنا غلط ہے، اس کا نفاذ پشاور میں کیسے درست ثابت ہوگیا؟ اسے کہتے ہیں:
تمہاری زلف میں ہوتی تو حسن کہلاتی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے
اب کس کے منہ میں اتنے دانت ہیں جو جناب پرویز خٹک سے پوچھے کہ آپ نے ڈاکٹروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار کیوں دے دیا ہے۔ اگر آپ کے چیئرمین کے نزدیک پی آئی اے میں ہڑتال عین جمہوری حق ہے تو پھر پشاور کے ڈاکٹروں کی ہڑتال خلاف جمہوریت کیونکر ہوگئی۔ ایک طرف تو آپ ایک قومی ادارے میں ہڑتال کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہڑتال کو ممنوع قرار دے رہے ہیں، جناب خان کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔
ڈاکٹروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں تو آتے نہیں اور اپنے پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں، بلکہ جو مریض ہسپتال میں آتے ہیں انہیں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کلینک میں آ جائیں۔ اب جو لوگ کلینک کی فیس افورڈ کرسکتے ہیں وہ تو وہاں چلے جاتے ہیں، جن کی اتنی سکت نہیں وہ رو دھو کر بیٹھ رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر مسیحا ہیں اور انہیں ہڑتال پر نہیں جانا چاہئے، لیکن بات تو متاثرین کی ہے اگر ڈاکٹروں کی ہڑتال سے مریض متاثر ہوتے ہیں تو پی آئی اے کی ہڑتال سے مسافروں کے مفاد پر زد پڑتی ہے۔ پتہ نہیں ان میں سے کتنے مریض ہوں گے جنہوں نے کسی دوسرے ملک میں مشکلوں سے ڈاکٹروں سے وقت لیا ہوگا، وہ اگر بروقت نہ پہنچے تو ان کا تمام کیا کرایا کھوہ کھاتے، کتنے طالب علم ہوں گے جنہوں نے اپنے تعلیمی اداروں میں جانا ہوگا اور وہاں کلاسیں جوائن کرنا ہوں گی، کتنے مزدور ہوں گے جنہوں نے لاکھوں روپے خرچ کرکے ویزے خریدے ہوں گے اور اس امید پر پی آئی اے کے مہنگے ٹکٹ خریدے ہوں گے کہ وہ بروقت روزی کمانے کیلئے پہنچ سکیں غرض متاثرین تو ہر جگہ ہیں۔ ہم کسی ہڑتال کی حمایت نہ کرتے ہوئے صرف عمران خان کے طرز عمل کے پیش نظر یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پی آئی اے کی ہڑتال جائز ہے تو پھر ڈاکٹروں کی ہڑتال ناجائز کیوں کر ہوگئی؟ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت ہسپتالوں کی نجکاری نہیں کر رہی بلکہ خدمات کی بہتری کیلئے اقدامات کر رہی ہے، جبکہ وفاقی حکومت بھی یہ کہتی ہے کہ وہ پی آئی اے کے حالات بہتر بنانے کیلئے ایسے سرمایہ کار تلاش کر رہی ہے جو پی آئی اے کی خدمات کو بہتر کرسکیں۔ اب اگر صوبائی حکومت کو ہسپتالوں کی بہتر حالت مطلوب ہے تو پی آئی اے کو بہتر کرنے کے اقدامات کیوں منظور نہیں؟ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ہسپتالوں کی خود مختاری سے پرویز خٹک کی کیا مراد ہے؟ پنجاب میں بھی کئی ہسپتالوں کو خود مختار بنایا جا رہاہے، کئی تعلیمی ادارے بھی اس عمل سے گزار دیئے گئے ہیں۔ ان پر پنجاب کی اپوزیشن تو تنقید کر رہی ہے، روزانہ کسی نہ کسی سیاسی رہنما کا بیان سامنے آتا ہے کہ ہسپتالوں میں غریبوں کو دوائیں نہیں ملتیں اور اگر ہسپتال خود مختار ہوگئے تو غریبوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب میں ہسپتال خود مختار بنانے سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا خیبر پختونخوا کے غریب کوئی سخت جان مخلوق ہیں کہ ہسپتال خود مختار ہوں گے تو ان کو فائدہ ہوگا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ہر جگہ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور ان کا طرزعمل بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں جو لوگ ڈاکٹروں کو تاوان کیلئے اغوا کر رہے تھے ان کا عجیب و غریب موقف تھا کہ ہم جن ڈاکٹروں کو اغوا کر رہے ہیں وہ غریبوں سے پیسے لے لے کر کروڑ پتی بن گئے ہیں، اس لیے ہم ان سے ’’غریبوں کا حصہ‘‘ وصول کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ لازمی سروسز کا قانون نافذ ہونے کے بعد ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں یا اس قانون سے سہم جاتے ہیں، اور اگر وہ پی آئی اے کی طرح غیر قانونی ہڑتال پر چلے گئے تو صوبے کی حکومت اس غیر قانونی طرزعمل کا جواب کیسے دیتی ہے؟

مزید :

تجزیہ -