جگہ جگہ سوال پوچھا جارہا ہے ،پرویزمشرف آخر واپس کیوں آگئے
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف جب سے وطن واپس آئے ہیں انہیں پے درپے ایسے واقعات پیش آئے ہیں ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ان کے لئے خوشگوار ہو۔ سندھ ہائیکورٹ میں پیشی کے موقعہ پر جوتابازی سے لے کر سپریم کورٹ میںسنگین غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کی درخواستوں تک ان کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کے بعد عوامی حلقے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پرویز مشرف آخر واپس کیا لینے آئے ہیں؟ وہ کس قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں جو انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں؟
پرویز مشرف تقریباً ایک دہائی تک اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے، اس کے باوجود وہ شائد ابھی تک زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی پروردہ اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لئے 3نومبر 2007ءکو دوسری مرتبہ آئین توڑا۔ انہیں دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کرانے کے اعلان کئے گئے، اب یہ لوگ کہاں ہیں؟ اب یہ معلوم نہیں کہ وہ کن قوتوں کی یقین دہانی اور ضمانت پر واپس آئے ہیں۔ تاہم یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستان میں اب کچھ دیگر قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں جن میں سرفہرست عدلیہ ہے اور ان نئی قوتوں سے عوام کسی غیر آئینی ضمانت یا یقین دہانی کی توقع نہیں رکھتی۔ یہ وہی عدلیہ ہے جس کے ارکان کو پرویز مشرف نے گھر بھیجا تھا۔ حالات بدلتے ہیں تو ضمانتوں اور یقین دہانیوں کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے جب پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت ڈھیلی پڑی تو شریف فیملی کی وطن واپسی کو کوئی ”ضامن“ نہ روک سکا تھا۔ ایسی ہی یقین دہانیوں پر جنرل (ر) پرویز مشرف واپس آئے ہیں تو پھر انہیں اپنے وطن واپسی کے فیصلے کا دن کی روشنی میں پوری ہوش کے ساتھ تجزیہ کرنا چاہیے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف آکر خود کو قوم کا مسیحا سمجھتے ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قوم انہیں کیا سمجھتی ہے۔ وہ خود کو ایک سیاسی قوت بھی خیال کرتے ہیں لیکن اپنی آل پاکستان مسلم لیگ کے عہدیداروں کے ناموں سے بھی پوری طرح واقف نہیں جس کا ثبوت انہوں نے ایک ٹیلی وژن ٹاک شو میں دیا اور پشاور میں اپنی جماعت کے صدر تک کا نام نہیں بتا سکے تھے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کو تسلی ہے کہ ان کے 3نومبر 2007ءکے اقدام میں معاﺅنت کرنے والے ابھی تک ایسے عہدوں پر ہیں کہ کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ ان کے وکیل نے ”غداری کیس“ میں گزشتہ روز جنرل اشفاق پرویز کیانی کو طلب کرنے کی اسی لئے استدعا کی تھی کہ عدلیہ پینڈورہ بکس نہیں کھولنا چاہے گی۔ عدالت نے یہ استدعا مسترد کرکے اشارہ دے دیا ہے کہ معاملہ سردست پرویز مشرف تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ عدلیہ آسان راستے کی موجودگی میں طویل اور دشوار راستہ کیوں اختیار کرے گی؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف جال میں پھنسنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں اور زمینی حقائق کو اہمیت نہیں دیتے۔ کارگل کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے اور 3نومبر 2007ءکے اقدام کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں گمراہ کیا گیا۔ وہ اب پھر کسی کی چال میں آگئے ہیں اور انہیں ”ٹریپ“ کرکے واپس لایا گیا ہے۔ وہ اس جال سے نکلنے کے لئے پھڑ پھڑا رہے ہیں، وہ اس سے نکل پاتے ہیں یا نہیں اس کا انحصار صرف جال کی کمزوری یا مضبوطی پر نہیں بلکہ ان ہاتھوں پر بھی ہے جو انہیں دبوچنے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں۔