جنرل پرویز مشرف نے تمام مطالبات مان کر امریکیوں کو انگشت بدنداں کر دیا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے دباؤ میں آکر لشکر طیبہ کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی ہر بات درست مانی جاسکتی ہے، ان کی دونوں باتیں درست ہیں مگر صد حیف کہ ا سکی سمجھ انہیں اب آئی ہے، جب وہ صدر مملکت تھے تو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ کی ایک ہی کال پر ڈھیر ہوگئے تھے۔ اس وقت امریکہ کا خیال تھا (اور شاید اب بھی ہو) کہ جو اس کے ساتھ نہیں، وہ اس کا دشمن ہے، نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو اس مقصد کیلئے اسے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی جو ان الفاظ کے ساتھ طلب کیا گیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ، پاکستان کے کمانڈو صدر نے اس کا جواب اثبات میں دیا، امریکہ نے سات مطالبات کئے جو سب کے سب مان لئے گئے اس بات پر بعد میں بڑی بحث ہوتی رہی کہ امریکہ کچھ اور مطالبات بھی کرتا تو وہ بھی مان لئے جاتے، اس وقت امریکی جرنیل زِنی کا خیال تھا کہ سات میں سے تین مطالبے بھی مان لئے جاتے تو امریکہ اسے اپنی کامیابی سمجھتا لیکن جب سارے کے سارے یعنی سات مطالبات مان لئے گئے تو خود ان امریکی حکام کو زبردست حیرت ہوئی تھی جو اس سلسلے میں سلسلہ جنبانی کررہے تھے، پاکستان نے اپنا ایک ہوائی اڈہ بھی امریکہ کے حوالے کردیا تھا، جہاں افغان آپریشن میں استعمال ہونے والے امریکی طیارے کھڑے رہتے تھے جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے اس فیصلے کو نہ صرف سو فیصد درست سمجھتے تھے بلکہ اس کی شد و مد سے آخر وقت تک وکالت بھی کرتے رہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی جگہ کوئی بھی دوسرا حکمران ہوتا تو اس کی حب الوطنی کا بھی یہی تقاضا ہوتا کہ وہ امریکہ کے مطالبات مان لیتا، اخبارات کے ایڈیٹروں کی ایک ملاقات کے دوران جب یہ سوال زیر بحث آیا تو ایڈیٹر نوائے وقت مجید نظامی (مرحوم) کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ان سے جوابی استفسار کیا کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے، جس کے جواب میں بزرگ صحافی نے کہا میں آپ کی جگہ کیوں ہوتا؟ میں جہاں ہوں وہاں اپنا کام ٹھیک کررہا ہوں، آپ بھی اپنا کام ٹھیک کریں، اس جواب پر جنرل صاحب کا پارہ چڑھ گیا جو عموماً ایسے بے ڈھب سوال جواب پر چڑھ جایا کرتا تھا۔ چنانچہ غصے میں انہوں نے ایڈیٹروں کی یہ مجلس ہی برخاست کردی جب تمام ایڈیٹر حضرات روانہ ہورہے تھے تو مجید نظامی کے پاس جاکر طارق عزیز نے کہا ’’نظامی صاحب آپ نے تو ہمارے صدر کو ناراض ہی کردیا‘‘ نظامی صاحب نے پیچھے مڑ کر طارق عزیز کو دیکھا اور بے نیازی سے کہا ’’آپ کون ہیں‘‘ طارق عزیز جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکے‘‘ آپ مجھے نہیں جانتے‘‘ یاد رہے کہ مجید نظامی کی یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ آخری ملاقات تھی، اس کے بعد انہوں نے ہدایت کردی کہ انہیں ان کے کسی پروگرام میں نہ بلایا جائے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اگر امریکہ کے مطالبات نہ مانتے تو بھارت آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کردیتا اور اس طرح ہمارے سٹریٹجک مفادات اور مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچتا، معلوم نہیں اب ان کا اس بارے میں کیا خیال ہے کیونکہ وقت گذرنے کے بعد جب آدمی حالات پر دوبارہ نظر ڈالتا ہے تو اس کی رائے بعض اوقات بدل بھی جاتی ہے، غالباً جنرل پرویز مشرف کے خیالات میں بھی تبدیلی آگئی ہے اسی لئے انہیں یہ کہنا پڑا کہ ہمیں بھارت اور امریکہ کے دباؤ میں آکر لشکر طیبہ پر پابندی نہیں لگانی چاہئے، یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں بھی یہ پابندی عائد کی تھی، شاید امریکہ کا دباؤ اس معاملے میں بھی قبول کرلیا ہو، اگر واقعی ایسا تھا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اقتدار میں حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں اور جب اقتدار ان کے پاس نہیں رہتا تو پھر ان کی سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے، اب کوئی اگر ان سے سوال کرے تو عین ممکن ہے وہ اس کے سوال پر مضطرب ہوکر اس سے یہ نہ پوچھیں کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے، اب حافظ محمد سعید کے لئے بھی ان کی محبت بہت جاگ گئی ہے عین ممکن ہے انہوں نے جو عوامی اتحاد حال ہی میں بنایا ہے اس میں وہ حافظ محمد سعید کی ملی مسلم لیگ کو بھی شامل کرلیں کیونکہ یہ جماعت اتحاد کی رکنیت کے لئے ہر پہلو سے کوالیفائی کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت میں امریکیوں کے وہ مطالبات بھی آسانی سے مان لئے جن سے انکار بھی کردیا جاتا تو امریکہ چنداں ناراض نہ ہوتا، بشرطیکہ جواب سلیقے اور سفارتی ادب آداب کے دائرے میں رہ کر دیا جاتا، آپ کو یاد ہوگا اسلام آباد میں طالبان کے ایک سفیر ہوتے تھے ملا عبدالسلام ضعیف سفارتی محاذ پر کافی متحرک تھے اور اپنی حکومت کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑ سکتے تھے، امریکہ نے پاکستان سے انہیں بھی مانگ لیا انہیں سفارتی تحفظات حاصل تھے، پاکستان اگر اس حوالے سے انکار کردیتا تو بُری بات نہ تھی لیکن جب امریکہ نے مُلا ضعیف کو طلب کیا تو پاکستان نے انہیں بھی گرفتار کرکے آنکھوں پر پٹی باندھ کر امریکہ کے حوالے کردیا، مُلا ضعیف کو گرفتار کرکے امریکہ کے گوانتاناموبے میں قید رکھ کر ان سے تفتیش کی گئی اور اس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا، رہائی کے بعد وہ افغانستان آگئے اور اب بھی وہیں ہیں انہوں نے اپنی اسیری اور رہائی کی داستان ایک کتاب کی صورت میں قلمبند کی ہے جو لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے اور اپنے موضوع کی مناسبت سے مقبول کتاب ہے ۔ گرفتاری کے وقت ان سے جو سلوک روا رکھا گیا اس کے بارے میں بھی انہوں نے شکوے کئے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی خود نوشت ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں لکھا تھا کہ ہم نے امریکہ کو مطلوب افراد پکڑ کر سی آئی اے کے حوالے کئے اور اس کے بدلے میں ڈالر لئے اس حوالے سے جب امریکہ میں ان سے سوال ہوا تو انہوں نے حیرت سے کہا اچھا کتاب میں یہ بات بھی ہے، بعد کے ایڈیشنوں میں یہ جملے حذف کردیئے گئے۔
انگشت بدنداں