’’گو نواز گو ‘‘ کا نعرہ لگانیوالوں کو سندھ اسمبلی میں ’’گو زرداری گو ‘‘ کا نعرہ سننا پڑا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ایک زمانے میں شیر پنجاب کہلانے والے سینئر سیاستدان غلام مصطفیٰ کھر نے جب اپنے ہی لیڈر اور مربی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت کو چیلنج کر رکھا تھا اور پرانی نیاز مندی اور تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر ان کے خلاف کھل کر بیان بازی کرنے لگے تھے تو ذوالفقار علی بھٹو نے ’’سو سنار کی‘‘ کے جواب میں ’’لوہار‘‘ کا ایک ہی وار اس انداز سے کردیا تھا کہ اس میں ایک جہان معنی پوشیدہ تھا، ریڈیو اور ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے (وزیراعظم) ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ’’اگر معشوق کے پاس کچھ پتے ہیں تو عاشق کے پاس بھی تو کچھ پتے ہوں گے‘‘ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر غلام مصطفیٰ کھر ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں تو جواب میں ان کے پاس بھی کہنے بہت کچھ ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف غلام مصطفیٰ کھر کی یہ تحریک عملاً ختم ہوگئی اور قومی اتحاد کی تحریک کے دوران انہوں نے سجدۂ سہو کرکے دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شریک اقتدار ہونا قبول کرلیا۔ وہ چند دن تک ان کے قومی سلامتی کے مشیر بھی رہے اور اس دوران بعض متنازعہ اقدامات کا ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ 5 جولائی کو سب کچھ ختم ہوگیا اور جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا آگیا اور پھر اس کے بعد پرانی سیاست کے چراغوں میں روشنی نہ رہی اور نئی سیاست میں نئے سیاسی چراغ جلنے لگے۔
’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ تو کافی عرصے سے لگ رہا ہے، تاریخی دھرنوں میں بھی یہ نعرہ لگ رہا تھا پھر اس کے بعد بھی یہ نعرہ کئی سیاستدانوں کی مرغوب غذا رہی اور اب تک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے اس نعرے کو گود لے لیا اور اعلان فرمایا کہ اب ہم ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگائیں گے اور عوام کو تخت لاہور سے نجات دلائیں گے۔ اس دوران پیپلز پارٹی نے زیادہ سرگرمی تو سندھ میں دکھائی البتہ لاہور کے ناصر باغ میں بھی ایک ’’پاور شو‘‘ کردیا۔ ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں والی پنکھیاں جھلتے ہوئے دو کروڑ کی آبادی کو چھوتے ہوئے اس شہر میں دو ہزار لوگ ناصر باغ میں جمع تو شہباز شریف کا نیا نام رکھنے کیلئے ہوئے تھے لیکن یہ کام ملتوی ہوگیا۔ پیپلز پارٹی اس طرح عوام کو یہ یاد دلانا چاہتی تھی کہ شہباز شریف اپنے دعوے کے مطابق لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکے اس لئے ان کا نام بدلا جائے گا اس کیلئے انہوں نے عوام سے تجاویز طلب کی ہیں۔ اگرچہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بعض اوقات کافی بڑھ جاتا ہے تاہم ابھی تک اس ضمن میں ریکارڈ پیپلز پارٹی کا ہی قائم ہے اور مسلم لیگ (ن) اسے توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بہرحال کوئی دل جلا اس سے یہ مطلب نہ نکال لے کہ لوڈشیڈنگ ہونی چاہئے اور اس کی حمایت کی جا رہی ہے کیونکہ آج کل ہر چیز کے من مانے مطلب نکالے جاتے ہیں جیسا کہ پانامہ فیصلے سے عمران خان نے یہ مفہوم نکال لیا کہ پانچوں ججوں نے وزیراعظم کو جھوٹا کہا ہے جس پر ایک فاضل جج کو کھل کر یہ کہنا پڑا کہ تین ججوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور عمران خان یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی ’’گو نواز گو‘‘ کی، جس پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی وزیراعظم کو گھر بھیجنا چاہتی ہے اور اس کیلئے تحریک چلانے نکلی ہے اور ملک بھر میں جلسے کر رہی ہے۔ جہاں ممکن ہوتا ہے ریلی بھی نکال لیتی ہے اور لاہور جیسے شہر کے تاریخی ناصر باغ میں احتجاجی اجتماع بھی کرلیتی ہے لیکن اس دوران اپنے پاور بیس سندھ سے ذرا نظر ہٹائی تو سندھ اسمبلی کے اندر ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے لگ گئے جس پر کچھ لوگوں کو خاصی حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی، شنید ہے کہ بعض نے تو یہ نعرے سن کر انگلیاں دانتوں میں داب لیں کچھ چہروں پر بوکھلاہٹ کی ہوائیاں اڑتی ہوئی دیکھی گئیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، پھر بعض انگلیاں سندھ کے گورنر کی طرف اٹھ گئیں کہ ہو نہ ہو یہ ان کی شرارت ہوگی۔ یہ واقعی گورنر سندھ کی ’’شرارت‘‘ تھی یا نہیں لیکن یہ مکافات عمل ضرور ہے اگر کسی نے یہ سوچا تھا کہ ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگتا رہے گا اور کسی جانب سے اس کا کوئی جواب نہ آئے گا تو اسے سیاسی حرکیات کا کوئی درست ادراک نہ تھا کیونکہ جب کوئی سیاسی عمل ہوتا ہے تو اس کا ردعمل بھی ہوتا ہے۔ اگر یار لوگوں نے ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگا کر سوچا تھا کہ ’’رو عمران رو‘‘ کی طرز پر کوئی ’’گو زرداری گو‘‘ کا نعرہ نہیں لگ سکتا تو درست نہیں سوچا تھا۔ سیاست میں نعرے اور جوابی نعرے لگتے رہتے ہیں اس لئے ہم نے ہمیشہ تجویز کیا کہ سیاستدان اپنی اپنی مثبت سیاست کریں دوسروں کے عیب گنوانے کی بجائے اپنے کارناموں کا تذکرہ کریں، الیکشن مہم اگر شروع ہو ہی گئی ہے تو سندھ کے حکمران اور پیپلز پارٹی پنجاب کے عوام کو دعوت دیں کہ وہ سندھ آئیں اور کراچی سمیت اندرون سندھ بہتی ہوئی دودھ اور شہد کی وہ نہریں ملاحظہ فرمائیں جو پیپلز پارٹی 2008 سے اب تک بہا رہی ہے اور آئندہ بھی ان نہروں کی روانی میں اضافہ کرنے کیلئے اگلے انتخابات میں وفاق میں دوبارہ حکومت بنانا چاہتی ہے بلکہ اس کی قیادت کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ اب کے پورے ملک میں حکومت بنائے گی کیونکہ جتنی خدمت اس نے سندھ اور کراچی کے عوام کی 2008 اور پھر 2013ء میں صوبائی حکومت بنا کر کردی ہے اس کے بعد اس کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کارنامے کی بنیاد پر دوبارہ وفاق میں حکومت بنائے لیکن خرابی یہ ہوئی کہ گورنر سندھ یہ کہہ بیٹھے کہ ووٹر آئندہ ان لوگوں کو ووٹ دیں جنہوں نے لاہور کو ترقی دیدی۔اب اس پر سید خورشید شاہ کا یہ کہنا تو بنتا تھا کہ گورنر سندھ کو سیاست کا شوق ہے تو وہ وفاقی وزیر بن جائیں، گورنر کے طور پر سیاست نہ کریں لیکن اس دوران کسی بے خبر اخبار نویس نے شاہ صاحب سے یہ پوچھ لیا کہ ان کے اپنے شہر سکھر میں سڑکوں کا کیا حال ہے تو وہ برا مان گئے اور کہا کہ س کو سکھر کی ترقی نظر نہیں آتی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی نہیں ہیں۔
سچی بات ہے ہم نے کراچی کا کچرا بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، سیاستدانوں کی زبان سے اس کا تذکرہ سنا اور ٹی وی کیمروں کی پرائی آنکھ سے سکرینوں پر دیکھا، اندرون سندھ کی ترقی دیکھنے سے بھی ہم محروم رہے۔ البتہ سکھر کی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک اس اخبار نویس نے اپنے چینل پر دکھا دی جس نے خورشید شاہ سے سوال کرنے کی گستاخی کر ڈالی تھی لیکن لاہور میں رہتے ہوئے ہم نے گورنر سلمان تاثیر مرحوم اور گورنر لطیف کھوسہ کے جو بیانات پڑھ اور سن رکھے ہیں، گورنر زبیر عمر کے بیانات تو ان کے سامنے پانی بھرتے ہیں، یہ بیان اگر تب سیاسی امور میں مداخلت نہیں تھے تو اب گورنر زبیر عمر کے بیانات کس طرح سیاست کی ذیل میں آئیں گے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا