کیا حلقہ 120میں بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کا تجربہ کامیاب رہے گا؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
نواز شریف کی نا اہلی سے لاہور کے حلقہ 120 کی قومی اسمبلی کی جو نشست خالی ہوئی ہے اس کے لئے کاغذات نامزدگی کی و صولی شروع ہوگئی ہے جو -12اگست تک جاری رہے گی، تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں جو 2013ء کے انتخاب میں بھی امید وار تھیں اور 40 ہزار ووٹوں کے مارجن سے اُنہیں نواز شریف نے ہرا دیا تھا اب اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک لاکھ ووٹ کی اکثریت سے جیتیں گی یعنی عام انتخابات میں انہیں کل جتنے ووٹ نہیں ملے تھے اب کی بار انہیں اتنی اکثریت ملنے کی امید ہے دنیا امید پر قائم ہے، انہیں الیکشن کے نتیجے تک اپنی اُمید نہیں ٹوٹنے دینی چاہئے۔ ابھی تک باقی کوئی امید وارحتمی طور پر سامنے نہیں آیا، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بیگم کلثوم نواز امید وار ہو سکتی ہیں انہوں نے کہا بھی ہے کہ یہ حلقہ اُن کے میکے میں واقع ہے اور خواتین اپنے میکے سے تعلق پر ہمشیہ خوش ہوتی ہیں وہ اگر امید وار بن گئیں تو مقابلہ کانٹے دار ہو جائیگا ابھی تک ایک غیر مصدقہ اطلاع ہے کہ ثمینہ خالد گھر کی پیپلزپارٹی کی امید وار ہو سکتی ہیں ویسے تو دوسرے کئی امید وار بھی سامنے آسکتے ہیں لیکن براہِ راست مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے امید وار کے درمیان ہی ہوگا پیپلزپارٹی مقابلے سے باہر نہیں رہنا چاہتی لیکن کامیابی کا تناسب کم ہے اگر دونوں جماعتوں کے تعلقات خوشگوار ہوتے تو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی مل کر مسلم لیگ (ن) کے امید وار کو ٹف ٹائم دے سکتی تھیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے قریب آنے کا ذرا سا امکان بھی پیدا ہوتا ہے تو عمران خان کا ایک ہی بیان امکانات کے اس سارے سلسلے کو توڑ دیتا ہے جب نواز شریف سے استعفا طلب کیا جارہا تھا تو دونوں جماعتوں کے درمیان اس ایک نُکتے پر بظاہر اتفاق تھا لیکن جونہی عدالت کا فیصلہ آیا اور عمران خان نے اسلام آباد میں جشن طرب کا اعلان کیا توجلسے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مخالف سیاستدانوں کے حسب سابق لتے لئے اور تان اس پر توڑی کہ زرداری اب تمہاری باری ہے، اب اس چیلنج کے بعد پیپلزپارٹی فوری طور پر تحریک انصاف کے قریب آنے کا غیر سیاسی فیصلہ تو نہیں کر سکتی وقت گذرنے کے سا تھ ساتھ یہ حادثہ کسی وقت ہوجائے تو کہانہیں جاسکتا،
حلقہ نمبر 120 کا ضمنی انتخاب پورے ملک کا مرکز نگاہ ہو گا بس امید واروں کی فہرست سامنے آنے دیں سیاسی سرگرمیوں کا لاوا ایک دم پھٹ پڑے گا الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ ووٹنگ کے لئے بائیومیٹرک مشینیں استعمال کی جائیں گی یہ پہلی مرتبہ ہے کہ الیکشن کمیشن کسی انتخاب میں ایسی مشینوں کے استعمال کا تجربہ کرے گا لیکن اس سلسلے میں بعض سوالات ایسے ہیں جن کا تسلی بخش جواب الیکشن کمیشن کے ذمے ہے اور اُمید کرنی چاہیے کہ اس کا جواب دے دیا جائیگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے والے ابھی تک اِس طرح کی الیکٹرانک ووٹنگ سے شناسا نہیں ہیں۔ یہ مشینیں اگرچہ بہت زیادہ پیچیدہ تو نہیں ہیں تاہم الیکشن کمیشن کو وکلاء کے تجربے کو سامنے رکھنا چاہئے جوبری طرح ناکام ہو گیا تھا ، لاہور ہائی کورٹ بار نے الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا تجربہ پہلی دفعہ کرنے کا حوصلہ کیا تھا لیکن اس میں ناکامی ہوئی، الیکشن ملتوی کرنے پڑے اور بعد میں پُرانے پرچی سسٹم کے تحت منعقد ہوئے، یہاں یہ بتانا قابل لحاظ ہے کہ وکلاء کا تعلق پڑھے لکھے طبقے سے ہے ہر وکیل کم از کم ڈبل گریجوایٹ تو لازماً ہوتا ہے، اکثر اس سے بھی اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حامل ہوتے ہیں لیکن وکلا کی ایک پیشہ ور تنظیم کے انتخاب میں بھی یہ تجربہ ناکام ہوگیا تو ناخواندہ اور نیم خواندہ ووٹر اِن مشینوں کا استعمال کِس طرح کریں گے؟اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالتے ہوئے اگر کنفیوز ہوسکتے ہیں تو جن لوگوں نے ایسی مشینوں کا دیدار زندگی میں پہلی دفعہ کرنا ہے وہ کیسے اطمینان کے ساتھ ووٹ ڈال سکیں گے ایسے نیم خواندہ ووٹر لامحالہ انتخابی عملے سے پوچھیں گے کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے ۔جس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ ہر کسی کو اطمینان بخش طریقے سے ووٹنگ کا طریقہ سمجھا سکے پھر ووٹر یہ تسلی کیسے کرے گا کہ اس نے اپنی پسند کے جس امید وار کے حق میں ووٹ ڈالا ہے وہ اس کے کھاتے میں جمع ہوا ہے یا مخالف امید وار کو مل گیا ہے۔ بھارتی ریاست یو پی کے انتخابات میں یہ شکایت عام رہی کہ ووٹر ووٹ ایک امید وار کو ڈالتا تھا اور ملتا کسی دوسرے کو تھا، ریاستی انتخابات میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ یوپی میں بی بے پی کی جیت میں ان ووٹنگ مشینوں کا بھی بڑا ’’کردار ‘‘تھا جنہیں اس انداز میں فِکس کر دیا گیا تھا کہ ووٹ کسی بھی امید وار کو ڈالا جاتا تھا کھاتے میں بی جے پی کے امید وار کے جمع ہوتا یوں بی جے پی پہلی مرتبہ اس ریاست میں حکومت بنانے کے قابل ہوئی، امریکہ کے صدارتی انتخاب میں بھی یہ شکایت سامنے آئی تھی کہ ھیلری کلنٹن کے ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ملتے رہے ، اگر امریکہ کے تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے باخبر ووٹروں کے ساتھ یہ ہاتھ ہو سکتا ہے تو پاکستان میں جہاں پہلی مرتبہ الیکٹرانک مشینیں استعمال ہو رہی ہوں گی ایسے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً وکلاء کی تنظیم کے انتخابات کے ناکام تجربے کے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ بات اہم ہے کہ امیدواروں کے جو پولنگ ایجنٹ پولنگ سٹیشنوں پر موجود ہوں گے کیا الیکشن کمیشن پہلے اُن کی تربیت کرے گا تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ سمجھاسکیں۔جو جماعتیں انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں یہ اُن کے مفاد میں ہوگا کہ اُن کے نمائندے چیف الیکشن کمشنر سے مل کر اس سلسلے میں تسلی بخش معلومات حاصل کرلیں اور پورے اطمینان کے ساتھ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے ، الیکشن کمیشن کی ساکھ کے لئے بھی یہ بات اہم ہے جس پر ماضی میں بھی دھاندلی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہتے ہیں اور یہ انتخاب بھی اس سے مُستشنیٰ نہیں ہوگا یہ تجربہ اگرکرنا ہے تو ہر لحاظ سے تسلی بخش ہونا چاہئے۔ بصورتِ دیگر دھاندلی کا ایک اور پنڈورا باکس کُھل جائیگا فریقین ہوشیار رہیں۔
بائیومیٹرک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ