’’صدر پیوٹن کے دوست ‘‘ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اپنے دورہ ماسکو سے کیا حاصل کرینگے ؟

’’صدر پیوٹن کے دوست ‘‘ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اپنے دورہ ماسکو سے کیا حاصل ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

امریکہ نے چند روز پہلے شام پر میزائلوں کی جو بارش برسائی ہے اس کے نتیجے میں عالمی حالات تو پیچیدہ ہو ہی جائیں گے اور ایک نئی عالمی جنگ کی شروعات بھی ہو سکتی ہے لیکن اس حملے کے بعد امریکہ کے اندر ٹرمپ کے بعض مخالف ایک دم اُن کے حامی ہوگئے ہیں اُن کا یہ خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اور جو کچھ بھی غلط کررہے ہوں ، شام پر حملے کا فیصلہ درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے امریکہ کو حاصل کیا ہوگا، کہا تویہ جارہا ہے کہ بشارالاسد کا جانا ٹھہر گیاہے لیکن یہ صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ نہیں ہے۔ بشار نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہت سخت جان حکمران ہیں انہوں نے اپنا ملک برباد کر الیا، بلکہ صحیح معنوں میں اینٹ سے اینٹ بجنا اِسی کو کہتے ہیں، لیکن اُنہوں نے حکمرانی نہیں چھوڑی، شام کی فورسز کی وجہ سے شامیوں پر کوہ الم گرپڑا، لاکھوں لوگ موت کے مُنہ میں چلے گئے اور اتنی ہی تعداد میں دنیا کے مختلف ملکوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہزاروں ایسے ہیں جو ملک سے نکلنے کی کوشش میں لانچیں ڈوب جانے کی وجہ سے سمندری لہروں کی نذر ہوگئے۔
امریکہ نے شام پر میزائل کیا برسائے، میزائل بنانے والے کارخانوں کے حصص کی قیمتیں ایک دم بڑھ گئیں جو کئی ماہ سے کم ہو رہی تھیں، امریکہ میں ایسی افوا ہیں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ صدر ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے ان اداروں میں حصص ہیں جن کے بنائے ہوئے میزائل سمندری جہاز سے شامی ائیر بیس پر داغے گئے، یہ ان اطلاعات کا ردعمل تھا کہ شامی فوجیوں نے باغیوں کے ٹھکانوں پر ممنوعہ کیمیکلز سے تیار ہونے والے ہتھیارپھینکے ہیں جن سے ہزاروں اموات واقعہ ہوگئی ہیں اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کے چہرے جھلس کر ڈراؤنی شکل اختیار کر گئے ہیں اور یہ لوگ زندہ درگور ہوگئے ہیں۔ منگل کو امریکی وزیر خارجہ ٹلرس ماسکو پہنچے تواُن کے پیشِ نظر بھی یہی تھا کہ روس کو امریکہ کا نقطہ نظر سمجھا نے کی کوشش کی جائے اور صدر پیوٹن سے کہا جائے کہ وہ بشارالاسد سے کہیں کہ وہ ظلم کا ہاتھ روک لیں لیکن صدر پیوٹن کا موقف ہے پہلے یہ تحقیق تو ہونی چاہئے کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کِس نے کئے؟ کہیں یہ ہتھیار باغیوں نے تو نہیں چلائے اور نام شامی فوجیوں کا لگا دیا، صدر پیوٹن اور صدر بشارالاسد یہ تحقیقات کرانے پر رضامند ہیں کہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ ممنوعہ کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے، صدر ٹرمپ کو اپنے پیشروصدر اوباما کی شام پر پالیسی پسند نہیں تھی اور وہ اپنی پوری انتخابی مہم میں اس پر نکتہ چینی کرتے رہے ان کا خیال تھا کہ شام پر حملہ غلط ہے لیکن اپنی صدارت کے تیسرے مہینے میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے حیراں کن حد تک ایسے اقدامات شروع کردیئے جو ان کے انتخابی وعدوں سے لگا نہیں کھاتے تھے۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی امریکی میڈیا میں انہیں مسلسل ہدف تنقید بنایا جارہا تھا لیکں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ شام پر میزائلوں کے حملے کے بعد ان کے حق میں کھل کر لکھا جا رہا ہے اور میزائل حملے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے حالانکہ اس حملے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال مزید الجھ گئی ہے اور روس نے امریکہ کے خلاف سخت بیان دیا ہے اس کے بعد ہی امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن بھاگم بھاگ ماسکو پہنچے ہیں اوران کا خیال ہے کہ صدر پیوٹن کو معاملات کی بہتری پر آمادہ کرلیا جائے گا۔ وہ اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن صدر ٹرمپ کو اندرون ملک سکھ کا سانس لینے کا ایک موقع ضرور ملا ہے اور ان کے خلاف مسلسل لکھنے والوں نے وقتی طور پر ہی سہی ہاتھ روک لیا ہے، اب آگے چل کر ان کی پالیسی کس حد تک حالات کی اصلاح میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔
ماسکو کے اپنے پہلے دورے پر روانگی سے قبل انہوں نے روس پر سخت نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ روس یورپی ملکوں کے انتخابات پر بھی اسی طرح اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے جس طرح اس نے نومبر میں امریکی انتخابات پر اثر ڈالا۔ اتوار کے روز میڈیا میں ٹلرسن کے جو انٹرویوز سامنے آئے وہ بہت ہی سخت الفاظ پر مشتمل تھے اور صدر ٹرمپ کے بیانات کی نسبت زیادہ ترشی لئے ہوئے تھے انہوں نے روس پر ’’نااہلیت‘‘ کا الزام بھی لگایا۔ امریکی ٹیلی ویژن اے بی سی نیوز کے پروگرام ’’یہ ہفتہ‘‘ میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ جس طرح امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی گئی اسی طرح اب یورپی ملکوں کے الیکشن میں بھی روسی مداخلت جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹرنے کہا کہ امریکہ نے شامی اڈے پر میزائل حملہ محض اس لئے کیا ہے تاکہ مستقبل میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے روکے جاسکیں۔ ان حملوں کا مقصد بشارالاسد کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا یاان کی حکومت کا خاتمہ نہیں تھا تاہم حملے کے ذریعے یہ مضبوط پیغام دیا گیا کہ اگر بشار اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی ہتھیار پھینک کر انہیں ہلاک کرتے رہے تو امریکہ اس پر خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا۔ وزیر خارجہ ٹلرسن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس (داعش) کو شکست دینا امریکہ کا مقصد ہے تاہم اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ جب تک بشارالاسد کی حکومت ہے شام میں نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی شامی عوام کو آزادانہ رائے دہی کے ذریعے بشار الاسد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق مل سکتا ہے۔ اگر آپ ان کے اقدامات پر غور کریں، اگر آپ صورتحال پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے کہ بشارالاسد کے ہوتے ہوئے کسی مثبت پیش رفت کا امکان ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن جو صدر پیوٹن کے دوست مشہور ہیں اور جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ روس کے خلاف امریکی پابندیاں ہٹانے کے حق میں ہیں، اب اتنے سخت ریمارکس دے کر جس دورے کا آغاز کر رہے ہیں اس کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
امریکی وزیر خارجہ

مزید :

تجزیہ -