سیاسی دیوار وں کو نوشتے پڑھنے کی صلاحیت کم سیاستدانوں کو حاصل ہوتی ہے
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی باتیں تو سننے میں بہت آتی ہیں لیکن عملاً اب تک کسی سیاسی اتحاد کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، چند روز پہلے خبر آئی تھی کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف 23 سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اِن جماعتوں کا اتحاد بتایا جائیگا لیکن اسے ہماری کوتاہ دستی کہہ لیں کہ جب ہم نے اِن جماعتوں کا نام معلوم کرنے کی کوشش کی جوجنرل (ر) پرویز مشرف کی سربراہی میں سیاسی اتحاد بنانا چاہتی ہیں توصرف دو نام معلوم ہو سکے باقی جماعتیں کون سی تھیں کچھ پتہ نہیں چلا، جن دو جماعتوں کے نام معلوم ہوئے اُن میں ایک توسُنی اتحاد کونسل ہے، اور دوسرے مجلسِ وحد ت المسلمین۔ سُنی اتحاد کونسل ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بذاتِ خود کئی سُنی جماعتوں کا اتحاد ہے عین ممکن ہے ان سب جماعتوں کی نمائندگی کا اعزاز سُنی اتحاد کونسل نے تنہا حاصل کیا ہو اور اِ ن جماعتوں کی تعداد بیس اکیس کے لگ بھگ ہودوسری جماعت مجلسِ وحدت المسلمین ہے تیسری جماعت خود آل پاکستان مسلم لیگ ہے جس کے سربراہ کی یہ زبردست خواہش ہے کہ اگلے الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد وجود میں آجائے جو تیسری قوت بن سکے، اب آب پوچھیں گے کہ یہ کرشمہ کِس طرح رونما ہوگا تو اس کا جواب وقت آنے پر خود جنرل (ر) پرویز مشرف دیں گے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اپنے دور اقتدار میں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُترسکیں، اور اگر انتخابات اِ س عالم میں ہوئے کہ کوئی تیسری قوت میدان میں نہ آئی تو پھر اِ ن دونوں میں سے ہی کوئی جماعت برسر اقتدار آجائیگی اور نئے الیکشن کا مقصد ہی فوت ہو جائیگا۔ اب آپ بجا طور پر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف بھی تو ہے جو نہ صرف حکومت کو ہر میدان میں چیلنج کر رہی ہے بلکہ پاناما کیس سپریم کورٹ میں بھی لے کر گئی ہے اور اب پوری قوم کے ساتھ فیصلے کا انتظار کررہی ہے تحریک انصاف کے چیئرمین کو یقین ہے کہ وزیر اعظم کی نا اہلی دیوار پر لکھی ہے اُن کا غالباً یہ بھی خیال ہے کہ اُدھر وزیر اعظم نااہل ہوئے اور اگلے ہی لمجے عمران خان وزیر اعظم ہوں گے۔ اُن کے نزدیک پوری پارلیمنٹ جس کے دو ایوان ہیں اور اِن دونوں ایوانوں کو ملا کر ان میں مسلم لیگ کے ارکان کی اکثریت ہے، اور اگر ایوان بالا اور ایوانِ زیریں کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی، پھر اِن دونوں ایوانوں کے الگ الگ سربراہ ہیں سینیٹ کے چیئرمین ہیں، ڈپٹی چیئرمین ہیں، قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں اور اُن کے ڈپٹی ہیں، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان مل کر حکومت بنتے ہیں اور حکومت کا وہی فیصلہ آئینی اور قانونی ہے جو وزیر اعظم کابینہ کی مشاورت سے کریں، ان سب کے اوپر صدر مملکت ہیں اِ ن میں سے اگر کسی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ وزیر اعظم تھے اُن پر بھی براہ راست کوئی الزام نہیں تھا، جو الزام بھی تھا اُن کی اولاد کے واسطے سے تھا، اب بقول عمران خان وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ تو دیوار پر لکھا ہوا ہے لیکن کیا دیوار پر اور کچھ نہیں لکھا باقی ساری دیوار سفید چادر کی طرح ہے؟ کیا باقی سیاسی حقیقتیں دیوار پر نہیں لکھی ہوئیں۔مثلاً جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ عمران خان نہ تو تیسری سیاسی قوت ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن میں سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب فیصلے کا وقت ہوتا ہے وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں، اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ 2002ء کے الیکشن سے پہلے اُن سے عمران خان نے ملاقات کی، جنرل(ر) مشرف کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اطلاعات تھیں کہ عمران خان کی جماعت چار چھ نشستیں جیت سکتی ہے، اُنہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ مُسلم لیگ (ق)کے ساتھ اتحاد کر لیں تو اُن کی ایک دو نشستیں بڑھ سکتی ہیں لیکن عمران خان کا خیال تھا کہ وہ دس بیس نہیں اکٹھی ایک سو نشستیں جیت رہے ہیں، اِس لئے وہ کیوں کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کریں؟ لیکن آپ کو یاد ہے اس انتخاب میں عمران خان صرف اپنی ایک نشست جیت سکے تھے۔ اب بھی اُن کے بارے میں جنرل(ر) پرویز مشرف کی رائے یہی ہے کہ وہ متبادل سیاسی قیادت نہیں ہیں جبکہ عمران خان نہ صر ف اپنے آپ کو متبادل سیاسی قیادت سمجھے بیٹھے ہیں بلکہ اُن کا یہ خیال بھی ہے کہ اگلے انتخاب میں وہ اس کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن جیت جائیں گے جو اُن کی جماعت نے خیبر پختونخوا میں دکھائی ہے۔ عجیب بات ہے عمران خان کو وہ نوشتہ دیوار تو نظر آتا ہے جو وزیر اعظم نواز شریف کے متعلق لکھا ہوا ہے اور جسے وہ صاف طور پر پڑھ بھی رہے ہیں لیکن وہ پوری دیوار نظر نہیں آرہی جس کا نوشتہ جنرل (ر)پرویز مشرف پڑھ رہے ہیں اور جنہیں لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ اگر تیسری سیاسی قوت نہ بنی تو اگلے الیکشن کا نتیجہ بھی کم وبیش یہی ہوگا جو اس وقت ہے یعنی یا تو مسلم لیگ (ن) جیت جائیگی یا پیپلزپارٹی، سیاسی اتحاد بنانے کے لئے جنرل (ر) پرویز مشرف کی مساعی بھی بڑی دلچسپ ہے ، سنی اتحاد کونسل اور مجلسِ وحدت المسلمین 2013ء کے الیکشن میں ایک نشست نہیں جیت سکی تھیں اب ممکن ہے جنرل(ر) پرویز مشرف کی سرپرستی قبول کر کے یہ جماعتیں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی دکھا سکیں ایک اور سوال یہ ہے کہ اگلے انتخاب سے پہلے مسلم لیگیں متحد ہو سکتی ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف اِس سلسلے میں جتنی کوششیں ممکن ہو سکتی تھیں اس سے پہلے کر چکے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا ممکن ہے آئندہ ایسا ہو جائے لیکن بظاہریہ ناممکنات میں سے ہے۔
نوشتہ دیوار