جی ٹی روڈ کا سفر تمام ہوگیا ، اینکروں کی پریشانی ختم ہونے میں نہیں آرہی

جی ٹی روڈ کا سفر تمام ہوگیا ، اینکروں کی پریشانی ختم ہونے میں نہیں آرہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
  آج ان کے دماغوں سے جی ٹی روڈ کا بھوت اتر گیا جنہیں یہ پریشانی لاحق تھی کہ اگر نواز شریف جی ٹی روڈ کے راستے لاہور گئے تو یہ بہت غلط ہوگا۔ عام لوگ جو اس سڑک پر سفر کرتے ہیں پریشان ہوں گے، مسافروں کو دقت ہوگی، ٹرانسپورٹروں کو نقصان ہوگا، دہشت گردی کے موہوم خطرات سے بھی ڈرایا جا رہا تھا، ممکن ہے کوئی حقیقی خطرہ بھی ہو، کیونکہ اس امر سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گرد مسلسل منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں اور جہاں موقع پاتے ہیں واردات کر ڈالتے ہیں، جیسے کوئٹہ میں انتہائی اندوہناک سانحہ ہفتے کی شب ہوگیا، پھر بھیڑبھاڑ کے مقامات ان کے من پسند ٹارگٹ ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے مواقع پر خودکش یا کسی اور قسم کا دھماکہ کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن جس انداز سے جی ٹی روڈ کے راستے نواز شریف کی آمد کو پیش کیا جا رہا تھا، اس میں خبث باطن کا اظہار زیادہ ہوتا تھا اور حقیقی خدشات کے بارے میں فکر مندی کم جھلکتی تھی، یہاں تک کہ محترمہ تہمینہ درانی کو یہ سوال اٹھانا پڑ گیا کہ ریلی کی وجہ سے جو دکانیں راستے میں بند ہوں گی اور اس کی وجہ سے تاجروں کا جو ’’اربوں روپے‘‘ کا نقصان ہوگا وہ کون پورا کرے گا؟ محترمہ کا بیان پڑھ کے خوشی ہوئی کہ چلئے حکومت کے ہمدرد حلقوں میں کوئی تو ہے جسے تاجروں کے نقصان کا غم کھائے جا رہا ہے ورنہ ہر کوئی ان بے چاروں کا نقصان کرنے پر تلا ہوا ہے، جنہوں نے گینز بک میں ورلڈ ریکارڈ بنائے، انہیں بھی پریشانی تھی کہ آخر موٹر وے کے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے اس پر ایک دل جلے نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ عمران خان اور طاہر القادری نے دھرنے کے لئے شاہراہ دستور کا انتخاب ہی کیوں کیا، حالانکہ اس کے لئے قلعہ رہتاس بہت موزوں تھا، جہاں مہینوں کی بجائے برسوں بھی دھرنا دیا جاتا تو کسی کو تکلیف نہ ہوتی، کیا لوگوں کو تکلیف سے بچانا ان کے پیش نظر نہ تھا؟ قلعہ رہتاس میں دھرنا دینے سے نہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کا راستہ روکنے کی ضرورت پڑتی نہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر گندے کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کی دیوار کی ریلنگ پر لٹکانے کی حاجت ہوتی، قبریں ہی کھودنی تھیں تو کسی قبرستان کا رخ کرلیا جاتا۔ شاہراہ دستور پر تازہ قبریں کھودنے اور کفن پہننے کی کیا ضرورت تھی؟
چار دن تک جی ٹی روڈ بعض اینکروں کے اعصاب پر بھی سوار رہی، انہیں کسی پل چین نہیں تھا اور یہ غم انہیں اندر سے گھلائے جا رہا تھا کہ آخر ایک نااہل وزیراعظم کو جو عدالت کے حکم سے نہ صرف وزارت عظمیٰ سے محروم ہوا بلکہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور آئندہ الیکشن بھی لڑ نہیں سکتا، اس طرح توہین عدالت کے ارتکاب کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں ہو رہا کہ فاضل ججوں کے کسی فیصلے کو قانون دان حلقوں نےء بھی پسند نہ کیا ہو، اگر آج تک جسٹس منیر کے فیصلوں کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے تو اس کا کیا جواز ہے؟ عدالتوں کے فیصلے اپنی اتھارٹی کی بنیاد پر نافذ ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی حیثیت بہت سوں کے نزدیک متنازعہ ہوتی ہے۔ اس لئے اگر تازہ فیصلے کو مان لئے جانے، اس پر عملدرآمد ہو جانے کے باوجود اس کے بعض پہلوؤں کو نقد و نظر کی میزان میں تولا جا رہا ہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ کیا یہ پہلا فیصلہ ہے جس کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے، اس سے پہلے کسی فیصلے کو اس طرح اور اس انداز میں نہیں دیکھا گیا، کیا سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی تھی؟ کیا اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا، اس پر نکتہ چینی کرنے والے بتائیں کہ کیا وہ توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہوئے تھے؟ اگر تب یہ توہین عدالت نہیں تھی تو آج کیوں ہے؟ ہم نے صر ف سوال کیا ہے جس کے پاس مثبت جواب ہو ہم اس کے ممنون ہوں گے، کہنے کا مقصد ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا ہے لیکن یہ فیصلے نکتہ چینی سے بالاتر نہیں ہوتے نہ انہیں کسی صحیفہ آسمانی کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو جسٹس منیر کا پہلا ہی اہم فیصلہ آج تک متنازعہ نہ ہوتا۔ چلئے اگر انہوں نے مفلوج گورنر جنرل غلام محمد کی ذہنی معذوری کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے اسمبلی توڑنے کے حکم کو سند جوازعطا کر دی تھی تو بعد میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کو ہی نظریہ ضرورت کی تقدیس عطا نہ کرتے۔ انہوں نے غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دیا اور ایوب خان کے مارشل لاء کو بھی، ان کے بعد آنے والوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو درست کہا اور جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو بھی، ان دونوں جرنیلوں کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا، جو ان کی درخواستوں میں مانگا ہی نہیں گیا تھا، اسی طرح پاناما کیس کے درخواست گزار وں نے اقامے کی بنیاد پر نواز شریف کی نااہلی نہیں مانگی تھی، وہ تو لندن فلیٹس کی بنیاد پر نااہلی چاہتے تھے، یہ معاملہ تو نیب ریفرنس کے سپرد کر دیا گیا، جس کے فیصلے کے لئے ابھی انتظار کرنا ہوگا، گویا اس وقت تک یہ طے نہیں ہے کہ لندن فلیٹس کی ملکیت جس کسی کی بھی ہے اس نے ناجائز ذرائع سے یہ ملکیت حاصل کی تھی۔ فاضل عدالت کے فیصلے پر عمل ہوچکا، لیکن اس کا جائزہ اسی طرح لیا جاتا رہے گا جس طرح مولوی تمیز الدین کیس یا دو سو کیس کا لیا جا رہا ہے یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کا لیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی نواز شریف کو جتنا چاہے ہدف تنقید بنائے لیکن اس پہلو کو بھی ملحوظ رکھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سپریم کورٹ کے حکم پر پھانسی دی گئی تھی۔ موجودہ فیصلے کو تقدیس عطا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن پھر کس اصول کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کو ہدف تنقید بنایا جائے گا؟ اس کا جواب شاید بابر اعوان تو اب نہ دیں، حالانکہ انہوں نے بھٹو کیس ری اوپن کرنے کی درخواست اس یقین کے ساتھ دائر کی تھی کہ اب بھی یہ کیس کھل سکتا ہے، لیکن اس کا جواب فاروق نائیک اور اعتزاز احسن جیسے ماہرین قانون کے ذمے تو رہے گا۔
جی ٹی روڈ

مزید :

تجزیہ -